محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


 اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں  زندگی کی نشوونما کیلئے اور پھلنے پھولنے کیلئے رنگا رنگ موسم بنا ئے ہیں،  غذا کے ہضم ہونے کے لئے اور صحت و تندرستی کے لئے سب سے بہتر موسم،  موسمِ سرماہی ہے۔ عام طور پر موسمِ سرما کا آغاز نومبر تک ہوجاتا ہے اور فروری تک چلتا ہے۔  مگر گزشتہ دو برس سے موسم کی تبدیلی میں  بدلاؤ آیا ہے،  اسے انسانوں  کے اپنے کرتوت کا نتیجہ کہیں  یا فطرت کی اپنی مرضی کے اب حسب روایت موسم نہیں  آتے۔  گرمی،  برسات اور سردی تینوں  موسم اب تاخیر سے ہی آ تے ہیں  اوران کے جانے کا نظام بھی اسی طرح تبدیل ہوا ہے۔ چونکہ طب یونانی کسی بھی مرض کی پیدائش یاشدت کیلئے موسم اور مزاج کو ہی عموماً سبب قرار دیتا ہے۔ لہذا موسم کے تغیر کے موجودہ حالات میں  نئے نئے امراض کے جنم لینے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ چونکہ اس وقت ماہ جنوری شروع ہوچکا ہے، لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحت اور موسمی تغیرات کے حوالے سے ایک طبیب ہونے کی ذمہ ادا کرتے ہوئے موسم سرمامیں  حملہ آور ہونے امراض سے قارئین کرام کو آ گاہ کیا جائے۔ دسمبر،  جنوری  میں  عموماً شدت کی سردی پڑتی ہے۔ اگر سردی سے بچاؤ کا اہتمام کیا جائے تو سردی رحمت اور اگر بے احتیاطی کی جائے تو سردیاں  زحمت بن جاتی ہیں۔  سردی اوریہ موسم کئی بیماریوں  مثلاً نزلہ زکام اور کھانسی کو بھی ساتھ لیکر آتا ہے دن میں  تیز دھوپ اور رات میں  خنکی سے جسم کا دفاعی نظام متاثرہوتا ہے۔ سردیوں  کی بے احتیاطی کا پہلا تحفہ انفلوئنزا یا وبائی فلو ہے،  ہمارے پیٹ کے اندر جگہ جگہ کام کرنے والی مشینری کا جال بچھا ہوا ہے یہ چھوٹی، بڑی مشینری آگ کی بھٹی کی شکل میں  کافی مقدار میں  خون اور چربی بنا بنا کر جسم کو گرم اور مضبوط بنانے کا کام جاری رکھتی ہیں ،  جس طرح جسم کے اندرونی کارخانے کے برابر ٹوٹ پھوٹ اور مرمت کا سلسلہ برابر چلتا ہے اسی طرح ہر موسم میں  ہمارے جسم کو زیادہ کام کرناپڑتا ہے اس کے لئے ہمارا دفاعی نظام بہتر ہونا چاہئے۔ ا س موسم کے امراض سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ درجہ زیل تدابیر پر عمل کیاجائے۔ اس  بات پرمحققین صحت کا عام اتفاق ہے  موسم میں  کچھ بیماریاں بڑھ جاتی ہیں  اور گھر کے چھوٹوں  بڑوں،  سب کے لیے کئی طرح کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔  ان سے کیسے نمٹا جائے، یہ جاننا بہت اہم ہے، نزلہ، زکام، کھانسی، ناک بند ہونا، ناک میں  ریشہ کا جمائو (Sinusits)، نمونیہ، الرجی (دمہ)، جسم اور بالوں  کی خشکی، کمر درد اور جوڑوں  کا درد، خارش اور دل کے امراض۔ سرد موسم میں  جسم کا خود کار نظام اپنی حرارت بچانے کے لیے بیرونی اعضاء اور جلد کی طرف خون کے بہائو میں  کمی کر دیتا ہے۔ اس طرح ہمارے بازو ٹانگیں  ناک کان اور جلد ٹھنڈک کا شکار ہو کر مختلف تکالیف میں  مبتلا ہو جاتے ہیں۔  جب سردی کی وجہ سے ہمارا ناک گلہ اور نظام تنفس کا اوپری حصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو بیرونی ٹھنڈی ہوا جس میں  جراثیم اور الرجی پیدا کرنے والے ذرات ہوتے ہیں  ہمارے نظام تنفس میں  داخل ہو کر نزلہ، زکام اور کھانسی وغیرہ پیدا کر دیتے ہیں۔  ایسے ہی ہمارے جلد اور سر کے بال خشک ہو جاتے ہیں۔  مزید یہ کہ گرم پانی کے ساتھ نہانے کے باعث جسم اور سر کے بالوں  کی قدرتی چکناہٹ ضائع ہو جاتی ہے، جس سے خشکی اور سکری بڑھ جاتی ہے۔ کمر اور جوڑوں  کے درد کا ایک سبب پٹھوں  اور جوڑوں  کی بافتوں  کا اکڑائو ہوتا ہے۔ خارش کا سبب ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو جلد میں  داخل ہو کر خارش پیدا کرتا ہے یہ کیڑا خارش زدہ فرد کے بستر یا لباس وغیرہ استعمال کرنے سے صحت مند شخص کے جسم میں  داخل ہو جاتا ہے۔ سردیوں  میں  دل کے امراض بڑھنے کی وجہ خون کے بہائو میں  کمی اور ایسی غذا ہے جو کولیسٹرول بڑھا کر خون کے بہائو میں  کمی کرتی ہے۔


احتیاطی تدابیر:سردی سے سب ہی متاثر ہوتے ہیں،  لیکن بچے اور بڑی عمر کے افراد جن میں  قوت مدافعت کم ہوتی ہے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔  سر، چہرہ، ناک، کان اور منہ کو ڈھانپ کر رکھنے سے نزلہ، زکام اور سانس کی کئی بیماریوں  سے بچ سکتے ہیں۔  سڑک پر گاڑیوں  کے دھوئیں  سے بھی بچنا چاہئے۔ کمرے کو گرم اور ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے دروازے کھڑکیاں  بند کر کے ان کے آگے پردہ ڈالنا چاہیے۔ اگر کمرا گرم کرنے کے لیے کوئلہ، لکڑیاں  وغیرہ جلانے کی ضرورت ہو تو ان کو کمرے سے باہر اچھی طرح جلا کر کمرے میں  لانا چاہیے،  ورنہ کاربن مونو آکسائیڈ گیس پیدا ہو کر زندگی کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ کسی بھی طرح سے جلائی ہوئی آگ کا دھواں  اور ماحول میں  ہوا کی نمی سے بھی کھانسی اور سانس کی تکالیف بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے دھوئیں  کے نکاس کا انتظام ضرور کرنا چاہیے۔ کھانسی اور خاص طور پر ٹی۔ بی کے مریضوں  کو اپنا بلغم پھینکنے میں  احتیاط کرنی چاہیے، کمرے کو گرم رکھنے کے لیے اگر ہیٹر چلایا جائے تو اس پر پانی کا برتن رکھنا چاہیے تا کہ اس سے نکلتی ہوئی بھاپ ہوا میں  نمی کم نہ ہونے دے۔ کمرے میں  بچھائے ہوئے کارپٹ یا قالین میں  گردوغبار جراثیم اور بہت سے انرجن موجود ہوتے ہیں۔  ان میں  ایک بہت چھوٹا سا کیڑا (Mite) بھی ہو سکتا ہے۔ جس کا فضلہ سانس کی تکالیف کا باعث بنتا ہے۔  اس لیے اگر قالین اور کارپٹ پر کوئی چادر وغیرہ بچھائی جائے تو یہ ایک اچھی حفاظتی تدبیر ہے۔ کمرے میں  خوشبو کا استعمال بھی سانس کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ کھانسی اور سانس کی تکالیف والے مریضوں  کو پھول کبھی نہیں  سونگھنا چاہیے پھولوں  میں  موجود پولن ایسے مریضوں  کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ سرد موسم میں  جسم کو گرم رکھنے کے لیے زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے میٹھی اشیاء خشک میوہ جات انڈا، مچھلی اور گوشت کا استعمال کرنا چاہیے۔ مچھلی کے سرے کنڈے اور سیاہ چنے کا شوربہ کم خرچ اور بالا نشین ہے اس سے پلائو بھی بنایا جا سکتا ہے۔ گھریلو خواتین کو پانی میں  کام کرتے ہوئے مناسب کپڑے پہننا چاہیں۔  بچوں  کو سردی عام طور پر ماں  کی ٹھنڈی گود اور ٹھنڈے دودھ سے لگتی ہے۔ اس لیے ماں  کو بچہ لینے سے پہلے گود گرم کر لینی چاہیے۔ نزلہ اور زکام کہا جاتا ہے کہ ہر انسان سال میں  دو یا تین بار نزلہ زکام کا شکار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نزلہ زکام کا علاج نہ کیا جائے تو آرام آنے میں  سات دن لگتے ہیں  اور اگر علاج کیاجائے تو بھی ایک ہفتہ لیکن اگر کھانسی ریشہ کی شدت بخار اور جسم درد زیادہ ہو تو علاج کرنا چاہیے۔ زیادہ اینٹی باڈیز استعمال نہیں  کرنا چاہیے۔ مچھلی، بھنا ہوا گوشت، شہد ملا نیم گرم پانی، قہوہ فائدہ مند ہے۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

یہاں کلک کر کے ہمارا فیس بک اکاؤنٹ فالو کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]