محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

بالاکوٹ پی کے30سے جنرل الیکشن 2018میں جیتنے والے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے میاں ضیاءالرحمن کی نااہلی کے بعد یہ نشست پھر سے خالی ہے جس کے لیے کئ امیدوار سامنے آ رہے ہیں۔ میاں ضیاء الرحمن کی نااہلی کے بعد میاں ضیاء الرحمن گروپ اور سردار محمد یوسف گروپ بھی ایک پیج پر دکھائ نہیں دے رہے، اگرچہ کچھ لوگ پردہ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں مگر اس دور میں بند کمروں کی باتیں بھی لیک ہو جایا کرتی ہیں۔


دونوں گروپوں کا خیال ہے کہ اپنے امیدوار لاۓ جائیں۔ میاں ضیاءالرحمن نے اپنے رشتےداروں کے نام بھی پیش کیئے ہیں اور سردار گروپ کی طرف سے بھی اشارے کنارے ہوتے دکھائ دیے تاہم بظاہر کوئ بڑا فیصلہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

گزشتہ دنوں سید احمدحسین شاہ کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبروں نے میاں گروپ اور سردار گروپ کی نیندیں مزید اڑا کر رکھ دیں۔ 

سردار گروپ کی جانب سے بھی بالاکوٹ میں رابطہ مہم کی خبریں چلنا شروع ہو گیں۔

پی کے تیس میں لیڈروں کا ووٹ بنک اور پوزیشن

یاد رہے پی کے تیس میں اکثریت گجرقوم کی ہے اور سردار یوسف صاحب اور میاں ضیاء الرحمن صاحب بھی گجر ہیں اور گجر قوم میں ان شخصیات کو انتہائ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کئ ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملیں گے جو ان شخصیات لیے مرمٹنے تک کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر نوجوان نسل کافی حد تک ان سے ناراض دکھائ دیتی ہے، جس کی بنیادی وجہ حلقے میں تعلیم صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے عوام کو محروم رکھنا ہے۔


پی کے تیس میں عام انتخابات میں میاں ضیاء الرحمن اور سیداحمدحسین شاہ کے درمیان ایک اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملا تھا، انیس بیس کے فرق سے میاں ضیاء الرحمن یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوۓ تھے۔ مگر قسمت کی دیوی پھر سے ناراض ہوئ اور ہمیشہ کے لیے نااہل ہو گے۔ ان کے علاوہ کئ اور امیدوار تھے جن میں سیدمظہرقاسم کا نام سرفہرست ہے۔

میاں ضیاءالرحمن ن لیگ کے ٹکٹ پر مظہر قاسم آزاد اور احمدحسین شاہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے۔

میاں ضیاءالرحمن کی نااہلی کے بعد کئ لوگ مظہرقاسم کو تحریک انصاف کا امیدوار دیکھنے کے خواہش مند تھے مگر اچانک احمدشاہ کی دبنگ انٹری نے یہ سپنا بھی چکناچور کر دیا۔

اگر بات کی جاۓ تو ووٹ بنک رکھنے کی پوزیشن کی تو یہ کہانی حیران کن طور پر بالکل عجیب ہے۔

میاں ضیاءالرحمن اگرچہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے مگر ان کو پڑنے والا ووٹ تقریباً95فیصد قوم پرستی اور سردار صاحب کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان کے والد ماجد سے لوگوں کی عقیدت کا تھا۔ ن لیگی نظریہ کو بہت کم لوگوں نے ووٹ دیا ہے اور دیتے ہیں۔


اسی طرح سید احمدحسین شاہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے ہیں اور پی کے تیس میں پی پی کا حال ن لیگ سے بھی برا ہے کوئ بھی پی پی کا نام لیوا آپ کو نہیں ملے گا۔ احمدحسین شاہ کو پڑنے والا ووٹ پی پی کے نظریے پر نہیں بلکہ احمدشاہ کو چاہنے والوں اور میاں ضیاءالرحمن سردار یوسف سے بیزار لوگوں کا ووٹ تھا۔ 


سید احمد حسین شاہ کی پی ٹی آئ میں شمولیت سے احمدشاہ کے ووٹ بنک پر کوئ اثر نہیں پڑے گا چونکہ پی پی کے نظریاتی ووٹ تو ہیں نہیں اور اب کی بار پی ٹی آئ کے ووٹ بھی احمدشاہ کو پڑیں گے۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئ کے جن ووٹرز نے مظہرقاسم کو سپورٹ کیا تھا، اب کی بار وہ احمد شاہ کو سپورٹ کریں گے۔ 

یعنی مجموعی طور پر احمد شاہ کی پوزیشن پہلے سے زیادہ بہتر دکھائ دیتی ہے۔ اور بہت سارے ایسے لوگ بھی ہونگے جو لاسٹ ٹائم پہ احمد شاہ کی طرف جھکاؤ اس لیے کریں گے کہ چلو حکومت بھی پی ٹی آئ کی ہے جیتنا تو ویسے بھی احمد شاہ نے ہے کیوں نہ انہیں ہی ووٹ سپورٹ کر کے اپنے کچھ کام نمٹانے کا ساماں کیا جاۓ۔


بالاکوٹ کے گردنواح کاغان روڈ کے آس پاس کے گجر قوم کے کئ بلدیاتی نمائندے یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے جن کے پاس چار پانچ سو ووٹ ہے جو ماضی میں سردار صاحب کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے اب ان کا جھکاؤ بھی احمدشاہ کی طرف ہے۔ اور اس تمام صورتحال کو سردار صاحب اور میاں صاحب بھی بخوبی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احمدحسین شاہ کی تحریک انصاف میں شمولیت پر ان لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔


دوسری طرف اہلسنت والجماعت کے حمایت یافتہ پاکستان راہ حق پارٹی کے نامزد امیدوار مولانا سیدعالم طاہر صاحب بھی باقاعدہ الیکشن لڑیں گے۔ انہوں نے میاں ضیاءالرحمن صاحب کی نااہلی کے ساتھ ہی انتخابی کمپیئن شروع کر دی تھی۔ اور جمیعت علماء اسلام(ف)کی جانب سے پی کے تیس سے قاری محمدافضل مرحوم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادے کو بھی میدان میں اتارنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ 

جمیعت کا امیدوار اور راہ حق پارٹی کا امیدوار احمد حسین شاہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہونگے چونکہ یہ تمام ووٹ میاں ضیاءالرحمن گروپ کا کاٹیں گے۔  


اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار گروپ اور میاں گروپ آپسی معاملات کو کیسے نمٹاتے ہیں۔ اور اپنے مضبوط مخالف امیدوار کو شکست دینے کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔

ہماری دعائیں نیک تمنائیں اور سپورٹ اسی کے ساتھ ہو گی جس کو پی ٹی آئ کا ٹکٹ ملے گا چاہے وہ کوئ بھی ہو۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

یہاں کلک کر کے ہمارے فیس بک اکاؤنٹ کو فالو کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]