محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

حضرت ابو ہریرہ(رض) کہتے ہیں رسول اللہ   صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم  نے فرمایا "اخری زمانے میں ایسے مکار اورجهوٹے لوگ پیدا ہوں گے جو ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباؤاجداد نے سنی ہوں گی(خبردار!)ایسے لوگوں سے بچ کے رہنا کہیں تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنوں میں مبتلا نہ کردیں"(مسلم

حضرت ابو ہریرہ(رض) کہتے ہیں رسول اللہ صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم  نے فرمایا "عنقریب لوگوں پر ایسا وقت ائے گا جس میں ہر طرف دهوکہ ہی دهوکہ ہوگا-جهوٹے کو سچا سمجها جائے گا اور سچے کو جهوٹا سمجها جائے گا-خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجها جائے گا اور روبیضہ خوب بولے گا-"عرض کیا گیا"یا رسول اللہ  صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم ! روبیضہ کون ہے؟ آپ  صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم نے ارشاد فرمایا"عامتہ الناس کے معاملات پر اختیار رکهنے والا کمینہ آدمی"-(ابن ماجہ)

میری ارباب اختیار سے یہ درخواست ہے کہ پاکستان کا اپنا ذاتی میڈیا سسٹم بنایا جاۓ ،عالمی طاقتوں کی اس میڈیا غلامی  سے نکلا جاۓ کیوں کہ آج یہ میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ بغیر ہتھیاروں کے آپ کو جیتی ہوئی جنگ ہروا سکتا ہے ،آپ کے بہترین اور ایماندار لوگوں کو گھٹیا جھوٹا اور بدترین بنا کے انہیں برباد کروا سکتا ہے اور   جھوٹے بدکردار بےایمان لوگوں کو ہیرو بنا کے عوام میں پیش بھی کر سکتا ہے آپ کی آنے والی نسلوں کی تعلیم اور تربیت گاہ بنتا جا رہا ہے ،

دوستو آج ہم جس معلومات کی بے جا رسائی کے دور میں ہیں اس دور کے بارے میں آپ صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم کی ایک حدیث ہے جو مکمل آج کے اس دور پے پورا اترتی نظر آ رہی ہے ، جس کا مفھوم ہے # آپ صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم نے فرمایا کہ دجال کی آمد سے پہلے کے چند سال دھوکے اور فریب کے سال ہوں گے # آج کا میڈیا بنادی طور پے ایک خوبصورت دھوکہ ہے  ایک فریب ہے ایک جھوٹ ہے جو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے سچ بولا جا رہا ہے ،

ساری کی ساری دنیا کا میڈیا وہ چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا اس کا 97  % حصہ تین بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہے ،!! والٹ ڈزنی  جس کے بورڈ آف گورنرز میں تمام کے تمام یہودی ہیں  یہ خاص یہود کے معاملات الیومناتی یا فری میسنز سے منسلک ہے ، !! دوسرا اس کے بعد روپیٹ مرڈوچ  کی کمپنی ہے اس کے پاس نیوز آف دی ورلڈ ہے ٹائمز ہے 21  سینچری فاکس ہے  اور بڑی نیوز ایجنسیز ہیں !! تیسری ہے ٹرنرز کمپنی 

ان کے چار بڑے بنیادی اصول ہیں ،توجہ سے سمجھیں 

1 دینا کی تمام تر موسیقی کو الیٹرونک کر دیا جاۓ یعنی جتنا بھی ممکن ہو سکے موسیقی کو تیز اور شور شرابے سے مزین کر دو ! ہلکی پھلکی اور سادہ موسیقی سے مزاج میں تیزی نہی آتی ہیجان نہی آتا اسے سہی طور پر سنا اور  سمجھا جا سکتا ہے اس سے  مزاج میں ہیجان یا غصہ کی بجاے ٹھراؤ سا آتا ہے ! تیز تر اور شور شرابے  والی موسیقی ایک تو سہی سمجھ نہی اۓ گی دوسرا اس سے مزاج میں جو ہیجان کی کیفیت پیدا ہو گی لوگ اس کی وجہ  سے جلد غصے میں انےوالا مزاج اپنایں گے اور اس پر ناچنے سے ان کا جسمانی اضطراب بھی ختم ہو گا ،جلد غصے میں آنے کی وجہ سے لوگ معاملات کی اصلیت کو سہی پہچان نہی سکیں گے اور ناچنے سے جسمانی اضطراب ختم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے جسموں کو زیادہ مثبت کاموں  میں نہی کھپایں  گے ، آج آپ دیکھیں کہ ایک گولی ٹافی ،چاۓ ،صرف ،گھی صابن ،کولڈ ڈرنکس ،کپڑے حتی کہ کسی تعلیمی ادارے کے اشتہار بھی ناچنے کے بغیر نہی بنتے ،مجھے کوئی ایک صرف ایک گھر ہی ایسا دیکھا دیں جس میں ان میں سے کوئی چیز آنے سے گھر والے ناچنا شوروع کر دیں ،یہ صرف لوگوں کو اصل معاملات سے دور رکھ کی ذہن سازی ہے   ،اس طرح دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی جو موسیقی سنتی ہے ان کی ذہن سازی ہوتی ہے 

2 دنیا میں اس طرح کے پروپوگنڈاز کیے جایں یا  ایسی کانسپیریسیز پھیلائی جایں کہ لوگوں کو یہ احساس ہونے لگے اور آہستہ آہستہ یہ احساس یقین میں بدل جاۓ کہ لوگ کچھ نہی کر سکتے دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا کی بڑی طاقتیں کرتی ہیں اور یہ نا تو ان کو روک سکتے ہیں نا ہی اس کو بدل سکتے ہیں ،یعنی ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ الله جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے،جسے چاہتا ہے ملک یعنی بادشاہت دیتا ہے جس سے چاہے ملک یعنی  بادشاہت چھین   لیتا ہے  ، لیکن  سوچ یہ بنائی گی ہے امریکہ یا انٹرنیشنل اشٹیبلشمنٹ جس ملک میں چاہیں جیسی مرضی اور جسے مرضی حکومت میں لے آیں اور جسے چاہیں حکومت سے الگ کر دیں ،جس کو امریکہ یا یہ بڑی طاقتیں چور یا دہشت گرد کہ کے ذلیل کریں وہ ساری دنیا میں چھوڑ یا دہشت گرد کہلاتا ہے ،جس کو یہ نوبل انعام دے کر عزت دیں ساری دنیا اس کی عزت کرتی ہے ،جو طاقتیں صرف اور صرف   خدا کے ہاتھ میں ہیں لوگ ان طاقتوں کو دنیا کی بڑی طاقتوں سے  منسوب کرنے لگیں .اس سے لوگوں کا خدا پر سے یقین تو اٹھے گا ہی خود پر بھی یقین نہی رہے گا ،اب ان میڈیا ہاوسز میں اچھے ایماندار سچے اور ان ہی میڈیا ہاوسز اور ان کی پالیسیز کے خلاف بولنے والے بھی آپ کو نظر کیوں آتے ہیں ،یہ ان میڈیا ہاوسز کے لیے ناظرین کا چارہ ہوتے ہیں یعنی اچھی اور مخلص عوام صرف ان لوگوں کو ہی سننے کے لیے ٹی وی دیکھتی ہے یا پڑھنے کے لیے اخبار خریدتی ہے تو ان کو ڈھال بنا کے لوگوں کو وہ سب بھی دیکھایا سنایا پڑھایا جاتا ہے جن کے بارے میں بات ہو رہی ہے 

3 جس ملک میں یا جس معاشرے میں بھی ان کے مخلص لیڈر پیدا ہوتے نظر آیں یا ہمارے قابو میں نا آیں تو ان کے خلاف ہر طرح کا لفظی حربہ استعمال کر کے اپنا میڈیا استعمال کر کے ان کو لوگوں کی نظروں سے گرایا جاۓ ان کی اصل شخصیت کو مسخ کر دو وہ جس طبقے سے بھی ہو اس طبقے میں موجود کسی ایک شخص کی برائی کو بھی اس سارے کے سارے طبقے پر چسپاں کر دو ،خاص کر کسی بھی مخلص مذہبی شخص کو 

آپ دیکھیں کہ لاکھوں کروڑوں داڑھی والوں میں سے اگر چند ایک کوئی برائی کرتے ہیں تو اسے پورے مذہبی معاشرے پر علماء پر مولویوں پر تھوپ دیا جاتا ہے ،سات آٹھ لاکھ کی فوج میں اگر پانچ دس فوجی کوئی غلط کام کرتے ہیں تو پوری کی پوری فوج کو مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے ، صرف ایک مثال پے ہی غور کریں کہ میڈیا کس  طرح ذہن سازی کرتا ہے اور معاشروں کے رویے تبدیل کرتا ہے کہ آج سے بیس پچیس سال پہلے اکثر پولیس ناکوں پر تلاشی کن کی ہوتی تھی کن پے شک کیا جاتا تھا اکثر جو بدمعاش قسم کے نظر آتے تھے فلمی سلطان رہی قسم کے ،منشیات استعمال کرنے والے اور اسی قسم کے لوگ آج سب کے درمیان سے سب سے پہلے داڑھی والے کو روکا جاتا ہے اسی پے زیادہ شک کیا جاتا ہے یعنی میڈیا نے داڑھی کو دہشت گردی اور کچھ خباثتوں  سے ایسے جوڑا ہے کہ اب ہمارے اذہان میں  یہ ہمارے نبی صلّی اللّٰہُ علَیہِ وَ آلِہ وسلّم کی سنت نہی رہی  بلکہ ایک منفی استعارہ بن گئی  

4 بےحیائی اور فحاشی کو اس طرح سے عام کیا جاۓ کہ لوگوں کو یہ بےحیائی یا فحاشی محسوس نا ہو لوگ اسے اپنے ہی معاشرے کی اقدار سمجھنے لگیں ،دنیا کے کس مسلم  معاشرے میں کس ملک میں کس گھر میں حتی کہ وہ لبرل بھی ہو کہاں ایسا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی غسل خانے سے باہر آتی ہو اور اپنی ٹانگیں دیکھا کے کہتی ہو کہ دیکھیں کہ اس کریم سے میری ٹانگیں کتنی نرم و ملایم ہو گئی ہیں ،میڈیا نے ہم کو ایسا غیر محسوس طریقے سے فحاشی کا عادی بنا رہا ہے کہ ایسی چیزیں فحاشی  لگتی ہی نہی عام روٹین کی باتیں لگتی ہیں ،صرف ایک مثال سے سمجھاتا ہوں   ،آج سے بائیس پچیس سال پہلے جب صرف پی ٹی وی ہوتا تھا اس پر عورتوں کے مخصوس ایام میں  استعمال ہونے والے پیڈز کا اشتہار آتا ہے ،سارے ملک میں ایک  ہنگامہ  برپا ہو جاتا ہے کئی جلسے جلوس کئی طبقوں کی طرف سے اس کے خلاف نکلتے ہیں کہ یہ فحاشی نہی چلنے دیں گے ،یہ اشتہار کچھ دنوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے ،کچھ دنوں بعد اسے دوبارہ  چلایا جاتا ہے اس دفعہ بھی ردعمل میں وہی ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ طبقے شامل نہی ہوتے اشتہار پھر بند کر دیا جاتا ہے ،تقریباّّ  ایک ماہ بعد یہی اشتہار پھر چلتا ہے اس بار صرف اسلامی جمیت والے ہی باہر نکلتے ہیں اشتہار پھر بند ،اب پھر ایک ماہ بعد یہی اشتہار چلتا ہے تو اب ہر طرف خاموشی ہے یعنی اس کو معاشرے میں جگہہ مل جاتی ہے .آج ہم اپنے گھروں میں نیم برہنہ لڑکیاں ناچتی گاتی دیکھتے ہیں ،عورتوں کے مخصوس بال تک صاف کرنے والی کریموں کے اشتہار دیکھتے ہیں حتی کہ کونڈمز کے اشتہار بھی معمول کا حصہ ہیں اب یہ باتیں فحاشی لگتی ہی نہی ،

اچھے خاصے بہترین پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی اس میڈیا کی اس ذہن سازی کا شکار ہونے سے نہی بچ سکتے ان کے اپنے خیالات اور فیصلے اس میڈیا کی ذہن سازی سے کیسے تبدیل ہوتے ہیں اس کی بھی ایک مثال دیکھیں 

افغانستان پر امریکی حملے کی اصل دو وجوہات تھیں ،ایک تو افغانستان میں طالبان کا  اسلامی خلافت کی طرز کا حکومتی نظام کہ کابل سے قندھار تک اگر کوئی عورت رات کے وقت بھی سونے کے زیور کے ساتھ لدی اکیلی سفر  کرتی تو  اسے کوئی خوف نہی ہوتا تھا ،کسی کا کوئی سرمایہ پیسہ کو چیز اگر کہیں گر گئی ہے تو کئی دنوں بعد بھی اس کو وہ اسی جگہہ سے یا اس کے پاس کسی شخص سے واپس مل جاتی تھی ،اگر ایسا اسلامی نظام دوسری مسلم حکومتیں اپنا لیتی تو یہ یہود و نصارا کے لیے موت کا پیغام بن جاتا 

دوسرا طالبان نے پورے افغانستان میں پوسٹ کی کاشت صفر کر دی تھی جس سے امریکہ کی سب سے بڑی ایجینسی سی آئی اۓ کی موت  واقیہ ہو جاتی کیوں کہ سی آئی اۓ کا نوے فیصد بڈجٹ منشیات سے چلتا ہے اور ان کا سب سے بڑا ذریعہ افغانستان میں کاشت ہونے والی پوسٹ تھی 

افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ کو سب سے بڑی مخالفت اور رکاوٹ پاکستان کے مذہبی طبقے سے تھی اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کم از کم پچانوے فیصد آبادی دلی اور ذہنی طور پے آج بھی مذہبی ہے ،تو اس طبقے کی اسی میڈیا کے  زریعے کیسے ذہن سازی کی گئی کہ ایک تو جعلی طالبان بنا کے ان سے دہشت گردی کروا کروا کر طالبان کو بدنام کیا گیا اور ایک صرف ایک سازش اور وہ  یہ کہ  صرف ڈھائی منٹ کی جعلی ویڈیو آتی ہے جس میں ایک عورت کو کوڑے مارتے دیکھایا جاتا ہے اس ویڈیو کو پورے  ملک کے میڈیا میں اتنا چلایا جاتا ہے اتنا چلایا جاتا ہے اتنے ٹاک شوز کرواۓ جاتے ہیں اتنی ابحاث کروائی جاتی ہیں کہ ہمارے اس مذہبی طبقے کو ہمارے علماء کو ہمارے معاشرے کو بھی یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ" ہمیں طالبان والا اسلام نہی چاہیے" کون سے طالبان وہی طالبان جن کے دور میں  کابل سے قندھار تک اگر کوئی عورت رات کے وقت بھی سونے کے زیور کے ساتھ لدی اکیلی سفر  کرتی تو  اسے کوئی خوف نہی ہوتا تھا ،کسی کا کوئی سرمایہ پیسہ کو چیز اگر کہیں گر گئی ہے تو کئی دنوں بعد بھی اس کو وہ اسی جگہہ سے یا اس کے پاس کسی شخص سے واپس مل جاتی تھی ،

اب آخر میں میں دوستوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اس موضوع پے لکھیں گے بھی اور ارباب اختیار تک بھی پوھنچایں گے کہ ہمیں غیروں کی اس میڈیا غلامی سے اب آزاد ہونا چاہیے 

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

یہاں کلک کر کے ہمارا فیس بک اکاؤنٹ فالو کیجیئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]