محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

ناڑہ...

مشہور مقولہ ہے کہ انسان کی عزت اس کے ناڑے میں ہوتی ہے. ناڑے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی شلوار کی تاریخ ہے..

ناڑہ خالص مشرقی چیز ہے. اور اہل مشرق کے لباس کا لازمی جزو ہے. عیدیں ہو یا شادی بیاہ نئے کپڑوں کے ساتھ ناڑے کی خریداری بھی شاپنگ کا لازمی حصہ ہوتی تھی

اب تو دیہاتوں میں بھی پرفیوم اور موبائل گفٹ کیے جاتے ہیں لیکن آج سے 20,25 سال  پہلے تک پریمی جوڑوں میں پراندے اور ناڑے کا تبادلہ کیا جاتا تھا. خاص کر کے ان دیہاتوں میں جہاں چاچی پھوپھی تائی خالہ کی بیٹیوں بیٹوں میں شادی کا رواج تھا اور شروع کی عمر میں ہی منگنی طے کر دی جاتی تھی تو وہاں عیدوں کے مواقع پہ لڑکی کا رومال پہ نام لکھ کے اور رنگ برنگے ناڑ ےبنا کے اپنے منگیتر تک پہنچانا محبت کا لازمی جز سمجھا جاتا تھا. اور صاحب بہادر بھی جب عید ملنے جاتے تھے تو ناڑے کے ایک حصے کو اس حد تک لمبا رکھتے تھے کہ جب وہ چارپائی پہ بیٹھتا تو وہ حصہ قمیض سے باہر نظر آنے لگتا اور یہ اپنی منگیتر کو جتلایا جاتا تھا کہ تمھارے تحفے کی ہمارے لیے کتنی اہمیت ہے. 

اسی طرح ایک عید کے موقع پہ ہمارے جاننے والے عاشق صاحب جب معشوقہ کو دکھانے واسطے اسی بندوبست کے ساتھ گئے تھے کہ جب چارپائی پہ بٹھایا جائے گا تو ہم ان کے تحفے کی خوب رونمائی کریں گے. لیکن موصوف کو اس گھر والوں نے کچھ دیر چارپائی پہ بٹھانے کے بعد کھانے کی غرض سے دسترخوان پہ تشریف رکھنے کی استدعا کی. اور موصوف کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے. اور ناڑے کی طرف دھیان نہیں دیا. کھانا کھا کے فارغ ہوئے تو اٹھتے اٹھتے دھڑام سے فوراً نیچے بیٹھ گئے اور انتہائی بےچارگی اور لاچاری کی حالت میں اس کھڑکی کی طرف دیکھنے لگے جہاں سے موصوف کی معشوقہ ان کے دیدار میں مصروف تھی اور نوالے گن رہی تھی. موصوف کے چہرے پہ لاچارگی اور بیچارگی کی وجہ یہ تھی کہ اٹھتے اٹھتے ناڑہ پاوں کے نیچے آ کے کھل چکا تھا... 

کچھ ناڑے ایسے بنائے جاتے تھے کہ ان کے دونوں سروں پہ دھاگوں کے ساتھ بڑے بڑے پھول بنائےجاتے تھے جو کہ ایلومینیم یا پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی بالوں پہ بنائے جاتے تھے.

ایک  قصہ کچھ یوں بھی ہے کہ ایک معشوقہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا گیا ایسا ہی نایاب تحفہ سعودی عرب میں موجود اپنے عاشق کو بھیجا کہ آتے وقت یہی تحفہ شلوار میں ڈال کے آنا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی. اور موصوف نے بھی کسی صورت رسک لینا مناسب نہیں سمجھا اور خوب تیار ہو کے ایئرپورٹ پدار گئے. 

موصوف جب واک تھرو گیٹ سے گزرنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بول اٹھی. واپس آئے جوتے اتارے جیبیں خالی کیں اور خوب ٹٹولا جب بالکل مطمئن ہو گئے تو پھر گیٹ سے گزرے تو وہی مسئلہ. گیٹ پہ کھڑے سیکورٹی اہلکار نے بھی خوب تلاشی لی کچھ نا ملا. ہاتھ مارتے مارتے اچانک اس کا ہاتھ ان بالز پہ لگا اور چونک گیا اور شرمندہ ہو کے ہیچھے ہٹ گیا. مگر ان صاحب بہادر نے کمال بےنیازی سے ناڑے میں لگی ان المونیم کی بالز جن پہ خوبصورت کام کیا گیا تھا وہ سامنے کر کے اس کی شرمندگی ختم کرنے کی کوشش کی. اور سیکیورٹی اہلکار معاملے کو سمجھ گیا. اور اسے بولا کہ شلوار کو اوپر سے مضبوطی سے پکڑو. جب اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا تو اس نے ناڑے کو پکڑ کے زور سے کھینچا اور نکال دیا۔ اور موصوف کو اسی طرح اس گیٹ سے گزرنے کا حکم دیا. اور اب کے خطرے کا الارم بھی خاموش رہا۔ اور اسے اسی طرح جہاز میں بیٹھنے کا حکم دیا. اور صاحب بہادر مرتا کیا نا کرتا کے مصداق شلوار کے اوپری حصے کو جمع کیا اور آپس میں باندھ کے معشوقہ کو کوستے کوستے کچھوے کی چال چلتے چلتے جہاز کی جانب روانہ ہو گئے. جب جہاز میں بیٹھ چکے تو جو رشتہ دار ایئرپورٹ چھوڑنے گئے تھے انہیں ساری رودادِ فون پہ سنائی.. اور مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان کے ساتھ کی سیٹ ایک صنف نازک کے حصے میں آئی تھی۔ موصوف نے کال پہ ایک خواہش کا اظہار کیا کہ گھر فون کر کے انہیں کہنا جو بھی ائیر پورٹ مجھے رسیو کرنے آئے ایک عدد سادہ ناڑہ لازمی ساتھ لائے۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]