محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ کار ہے، جو استعمال کرنے والوں کو تصاویر ویڈیوز اشتراک کرنے، اظہارِرائے، تبادلہ خیال اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کی کھلی آزادی دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور دورِ جدید میں اس کا استعمال بھی بکثرت ہونے لگا ہے، ہر خاص وعام اور چھوٹے بڑے، حتی کہ کمسن بچوں کے بھی اوقات فیس بک اور واٹس ایپ پر صرف ہونے لگے ہیں اور اب تو انتہائی مصروف ترین انسان بھی اپنا کچھ نہ کچھ وقت سوشل میڈیا پر دینے لگا ہے۔


سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا انگلی کی جنبش پر آ چکی ہے، گویا پوری دنیا مٹھی میں ہو گئی ہے، ہم جب چاہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات واخبار پر سیکنڈوں میں نظر رکھ سکتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی شخص سے اپنا رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔


ویسے سوشل میڈیا کو یکسر نقصانات کا باعث نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور ناہی مکمل فوائد کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے، تاہم اس کا استعمال خود پر منحصر ہے، جس طریقے سے ہم استعمال کریں گے، اسی کے مطابق اس کے ثمرات ظاہر ہوں گے، اس کے ذریعہ اچھے مقاصد بھی حاصل کیئے جا سکتے ہیں، چنانچہ دیکھا جا رہا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا میں وہ نیک بندے بھی دلچسپی لینے لگے ہیں، جن کے بائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے کو برائی لکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، ایسے نیک لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، پھر بھی وہ گناہوں سے مبرا رہتے ہیں، اس لئے کہ وہ اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں، ایسے افراد کو دوست نہیں بناتے ہیں، جو غلط تصاویر اور ویڈیوز شیئر، پسند اور اس پر تبصرہ کرتے ہیں، وہ لایعنی پیج کو لائک نہیں کرتے ہیں، کسی فرضی یا لڑکی کے نام اکاؤنٹ سے آئی درخواست کی توثیق نہیں کرتے ہیں اور فحش مواد پر مبنی سائٹس پر نہیں جاتے ہیں، اس طریقے سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے لئے فائدہ مندہ ہے، تاہم ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے، جو صرف وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرتے ہیں، وہ محض ذاتی اور دوسروں کی تصاویر ہی شائع کرتے ہیں، بعض مرتبہ کم تعلیم یافتہ نوجوان بلا تحقیق فرضی خبریں اور فرضی احادیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے پوسٹ کرتے ہیں، ایسی حرکت کرنے والے اپنے لئے آخرت میں جہنم تیار کرتے ہیں۔


مسلم سماج کی نئی نسل ایسی بھی ہے، جو عریاں تصاویر زنا کاری کی ویڈیوز لائک اور اشتراک کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے، ایسی نا شائستگی کرنے والے جان لیں کہ یہ ایسا گناہ ہے، جس کا سلسلہ خدا جانے کب تک جاری رہے گا، اس لئے کہ ہماری شیئر کی ہوئی چیزیں اپنے اکاؤنٹ تک محدود نہیں رہتی ہیں، بلکہ اس کی شیئرنگ کا دائرہ شبانہ روز وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، بے شمار لوگ ہماری پوسٹس کو دیکھتے ہیں، پھر وہ بھی شیئر کر دیتے ہیں، اگر ہم اس کو حذف کرنا بھی چاہیں تو انتہائی مشکل ہے، ذاتی آئی ڈی سے تو ختم کرنا آسان ہے، لیکن ان سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کے اکاؤنٹ سے کس طرح حذف کرنا ممکن ہے، جنہوں نے ہماری پوسٹ کو محفوظ کرکے شائع کیا ہے، لہذا ہم ذاتی طور پر گناہ کے مرتکب ہوئے ہی، دوسری طرف ان لاتعداد لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہمارے سر آئے گا اور اس سنگین گناہوں کا سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے گا، اس لئے ہمیں فحش اور گناہ کی موجب چیزیں سوشل میڈیا پر اشتراک کرنے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہئے اور اس کا استعمال صحیح اور محتاط انداز میں کرنا چاہئے۔


مشاہدے سے یہ بات واضح ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ بہت سارے فتنے بھی ابھر رہے ہیں، چنانچہ آج کل فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ایسے لوگ بھی ہیں، جن کا مشغلہ دوسرے مکتبہ فکر کے خلاف تحریریں ارسال کرکے ملت میں انتشار پھیلانا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مسلک کے حامی حضرات اس کے خلاف تبصرہ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تبصرہ طول پکڑتے پکڑتے گالی گلوج کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ اسلافِ دین اور مذہبِ اسلام کی توہین تک پہنچ جاتا ہے، بعض مرتبہ دانستہ طور پر کسی مذہب اور اس کے پیشوا کے خلاف نا زیبا الفاظ اور قابلِ اعتراض تصاویر کے ذریعہ لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے اور بات فساد کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔


سوشل میڈیا پر ایک اور فتنہ تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، بہت سے لوگ بحوالہ حدیث لکھ کر بھیجتے ہیں اور اس کے نیچے لکھا رہے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حدیث کو شیئر کرے گا، دوسروں تک پہنچائے گا، اس کے اوپر جنت واجب ہے، واضح رہے کہ کسی بھی حدیث کے نیچے اس طرح کے لکھے جملے منقول نہیں ہیں۔


دوسری طرف کلمہ طیبہ یا کچھ عربی کلمات لکھ کر بھیجا تا ہے اور اس کے اوپر یا نیچے لکھا رہے گا کہ اگر آپ نے اس کو سات یا دس لوگوں تک پہناچایا تو آپ کے گھر میں خوش حالی آئے گی، نوکری لگ جائے گی اور ہر تمنا کی تکمیل ہو جائے گی اور ایک شخص نے اس کو دیکھنے کے باوجود نظر انداز کر دیا، جب صبح اٹھا تو اس بیٹا مر گیا، شام ہوئی تو اس کی بکری مر گئی۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے، جب تعلیم یافتہ لوگ ایسی باتیں شوسل میڈیا کے حوالے کرتے ہیں، اس لئے ہمیں ایسی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے اور ناہی اس پر اعتماد کر کے شیئر کرنی چاہئے۔


آج کل ایسی علمِ غیب اور مستقبل کی خبریں دینے والی مختلف قسم کی سائٹس بھی منظر عام پر آرہی ہیں، جس میں لکھا رہے گا کہ اس لنک پر کلک کریں اور جانیں کہ آپ کب کیسے اور کس حال میں مریں گے، مزید کتنے سال زندہ رہیں گے، آپ کی شادی کس غنی لڑکی سے ہوگی، آپ کس عمر میں انتہائی مالدار ہوں گے، آئندہ آپ کی کس بڑی شخصیت اور حکمراں سے ملاقات ہوگی، آپ کس قابل شخصیت کے مالک ہیں، آپ کے اندر کون کون سی صلاحیت موجود ہے، کس بنیاد پر آپ کے دوست آپ کو پسند و نا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اردو میں لکھے جملے بطور نجومی سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں، جس پر تیزی سے ہمارے ایمان والے بھائی بہن سرچ کرتے ہیں اور ہم اپنا مسقبل جاننے کے لئے اس پر یقین کرتے ہیں، جب کہ مسقبل اور غیب کا علم صرف اللہ کو ہے اور جو ایسی باتیں بتانے کا دعویٰ کرے، پھر اس پر کسی مسلمان کا اعتبار کرنا، حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور یہ ایمان کے لئے خطرہ بھی ہو سکتا ہے، لہذا ہمیں اس طرح کی سائٹس کو ناقابل اعتبار سمجھنا چاہئے اور اس کی تردید بھی کرنی چاہئے، مگر بسا اوقات مذہبی تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسی کفریہ سائٹ پر اپنا مستقبل معلوم کرتے ہیں اور اس کو فیس بک پر شیئر بھی کر دیتے ہیں۔


اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ سامنے آرہے ہیں، نئی نسل کا مستقبل سوشل میڈیا تنزلی کی طرف لے جا رہا ہے، ان کے قیمتی اوقات زیادہ تر اسی پر ضائع ہو رہے ہیں، پیسے کی بربادی، تعلیمی معیار میں کمی، مطالعہ کتب سے دوری، اخلاق میں گراوٹ، مذہبی اعمال میں کوتاہی، بڑوں کی بے ادبی، والدین کی طرف بے توجہی جیسے بے شمار مسائل نسلِ جدید میں دن بدن پیدا ہو رہے ہیں، حالانکہ شوسل میڈیا کی ایجاد سے قبل اس طرح کے تباہ کن مسائل کے اوسط بہت کم تھے، اس لئے شوسل میڈیا کے غلط استعمال پر قدغن لگانا ضروری ہے، اس میں سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، لیکن اکثر گھروں کے سرپرست شوسل میڈیا سے لا علم ہیں، جس کی وجہ سے اپنے بچوں کی شوسل میڈیا پر جاری سرگرمیوں پر نظر رکھنا مشکل ہے، ایسی صورت میں انہیں بھی کچھ معلومات حاصل کرنی چاہئے، تاکہ تربیت میں آسانی پیدا ہو سکے۔


شوشل میڈیا کو معلومات اور دوسرے استفادات کا ذریعہ تو کہا جا سکتا ہے، تاہم کمسن بچوں اور طالب علموں کے لئے سراسر مضر اور زہرِ ہلاہل سے کم نہیں ہے، قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس سے بجائے فائدہ اٹھانے کے برائیوں کو فروغ دے کر گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں، اس سے تشویش ناک بات تب ہوجاتی ہے جب ہم شوشل میڈیا کو دوسروں کی دل آزاری اور دل شکنی کا سبب بنانے لگتے ہیں، ہم نے بارہا اور بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اکثروبیشتر اپنے ہی محلے اور گاؤں کی بہنوں کی تصاویر فیس بک پر شائع کرتے رہتے ہیں، پھر کچھ منچلے نوجوان اس کو شیئر کرنے لگتے ہیں، اور معاملہ صرف یہیں تک نہیں رہتا ہے بلکہ اس تصویر پر غیر مہذب تبصرے بھی ہونے لگتے ہیں اور کچھ تو اس لڑکی کی تصویر باقاعد اپنے فون میں محفوظ کر لیتے ہیں، پھر اس کو اپنے دوستوں کے واٹس ایپ پر تیزی سے ارسال کرنے لگتے ہیں۔ایسی حرکت کرنے والے نوجوانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اپنے ہی محلے اور پڑوسی کی بہنوں کی عزت تارتار کرنے سے ذراسا بھی خوف نہیں کھاتے، جو لڑکی کبھی بے پردہ باہر نہیں نکلی ، آج اس کی تصویر شوشل میڈیا پر گھوم کررہی ہے ۔ہمارے علاقے کے نوجوان اور بچے اس طرح کی حرکات کرنے سے پہلے ذرا سا بھی غور نہیں کرتے کہ جس لڑکی کی تصویر شیئر کی گئی ہے، اس کے بھائی اور باپ کی نظر اس پر پڑتی ہوگی، یاپھر وہ کسی سے سنتا ہوگا کہ تمہارے بہن کی تصویر فیس بک اور واٹس ایپ پر گشت کررہی ہے، تو ہم خود غور کریں کہ اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، اگر یہی حرکت کوئی ہماری بہن یا بیٹی کے ساتھ کرے تو یقیناً ہم اس کو جلد از جلد مارنے کو ہی ترجیح دیں گے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنی دینی بہن یا کسی بھی صنف نازک کی تصاویر شیئر نہ کریں، سوشل میڈیا کو دینی ودنیاوی معلومات، دیگر جائز استفادات اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کا ذریعہ بنائیں


یہاں کلک کر کے ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں۔


  • پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

Muhammad Ashraf Rawalpindi Pakistan


مزید اچھی تحریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]