محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

مولانا محمداعظم طارق شہید 28مارچ1962 کو چیچہ وطنی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوۓ ان کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔

 ابتدائی مذہبی تعلیم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگ میں واقع دار العلوم ربانیہ سے حاصل کی۔ تحصیل علم کے لیے وہ مدرسہ تجوید القرآن چیچہ وطنی اور جامعہ عربیہ نعمانیہ چنیوٹ سے بھی منسلک رہے۔ انہوں نے 1984ء میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے دورہ حدیث کا کورس مکمل کیا۔ انہوں نے وفاق المدارس سے عربی اور اسلامیات کے مضامین میں ایم اے کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہوئی تھیں۔ تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد وہ جامعہ محمودیہ کراچی میں صدر مدرس اور ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جامعہ صدیق اکبر نارتھ کراچی کے خطیب بھی تھے۔


1985میں بننے والی سپاہ صحابہ (اس وقت انجمن سپاہ صحابہ) کے قیام کو ابھی سات ماہ ہی کا عرصہ گزرا تھا وہ اس میں شامل ہو گئے اور کراچی میں اس کی تشکیل شروع کر دی۔ وہ پہلے کراچی سنٹرل اور بعد میں کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ 1989ء میں جماعت کے بانی قائد مولانا حقنواز جنگوی نے انہیں صوبہ سندھ کا سیکریٹری جنرل نامزد کر دیا۔ حق نواز جھنگوی کی شہادت کے بعد وہ پہلے سپاہ صحابہ کے ڈپٹی سیکریٹری بنے۔ جنوری 1991ء میں وہ جماعت کے نائب سرپرست اعلیٰ بنے۔ اس مرحلے پر انہوں نے کراچی سے سکونت ترک کر دی اور جھنگ میں قیام پزیر ہو گئے۔ یہاں انہیں مسجد حق نواز جھنگوی کا خطیب مقرر کیا گیا۔ ملکی سیاست میں ان کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب انہوں نے سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے جھنگ شہر کی قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی۔ مولاناایثار القاسمی کی  شہادت کی وجہ سے ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہوں نے سپاہ صحابہ کے روایتی حریف شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف کو شکست دی۔


جنوری1996 میں لاہور کے سیشن کورٹ میں ہونے والے بم دھماکا میں سپاہ صحابہ کے قائد علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی کی شہادت کے بعد وہ سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلیٰ بن گئے۔ انہیں گوجرانولہ کے ایس ایس پی اشرف مارتھ کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ جیل میں گزارا۔ 1997 میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کا مقابلہ ڈاکٹر ابوالحسن انصاری سے تھا۔


ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ پہلا حملہ ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور میں اس وقت ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہے تھے۔ اس حملے میں ان پر راکٹ بھی فائر کیے گئے لیکن وہ بال بال بچ گئے۔


17جنوری1986  میں لاہور کے سیشن کورٹ پر ہونے والے حملے کا بھی اصل نشانہ اعظم طارق ہی تھے۔ حملے میں سپاہ صحابہ کے قائد ضیا الرحمٰن فاروقی، دو درجن سے زائد پولیس ملازمین، ایک پریس فوٹوگرافر شہید ہوئے جبکہ خود اعظم طارق زخمی ہوئے۔


مجموعی طور پر مولانا اعظم طارق شہید پر بارہ قاتلانہ حملے ہوۓ۔ مولانا اعظم طارق شہید نے جس طرح اصحاب رسولﷺ کی ناموس کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنان صحابہ کو للکارا اس کی مثال وہ خود ہیں۔ سپاہ صحابہ بنانے والے علامہ حقنواز جھنگوی شہید تھے مگر باوجود اس کے آج تک دشمنان اصحاب حقنواز سے زیادہ اعظم طارق شہید کے مخالف نظر آتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ اعظم طارق شہید کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے امام مہدی کے بارے میں اہلسنت اور اہل تشیع عقائد کی دلائل سے تشریح کی جن تقریروں کو آج بھی بارویں امام کا آپریشن کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ سی ڈی کیسٹ اور یوٹیوب پر بھی وہ تقاریر سنی جا سکتی ہیں۔

اسی عنوان کو جب مولانا اعظم طارق شہید نے فیصل آباد دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کے جلسے میں جب چھیڑا تو مخالفین آپے سے باہر ہو گے اور فائرنگ شروع کر دی اعظم طارق شہید کی پوری تقریر کے اندر گولیاں چلتی رہیں مگر اصحاب رسولﷺ کا یہ دیوانہ ایک لمحہ کے لیے نہ رکا اور اپنا خطاب جاری رکھا، قائد کی جرات کو دیکھ کر اس کے کارکنوں نے بھی نظم ضبط و ڈسپلنگ کا ایسا معیار قائم کیا کہ آج بھی لوگ رشک کرتے ہیں۔

جلسہ گاہ کے اوپر سے گولیاں گرج رہی ہوں اور سیدھی سٹیج  کے پیچھے موجود درختوں سے ٹکرا رہی ہوں اور قائدین اپنا موقف برابر بیان کرتے رہیں کارکنان گولیوں کے پرواہ کیئے بغیر اپنے قائد کو سنے جا رہے ہوں،یقیناً  یہ جرات یہ بہادری صرف اور صرف سپاہ صحابہ ہی دکھا سکتی ہے۔ یہ کسی اور سیاسی و مذہبی جماعت کے بس کی بات نہیں،، اکثر کہیں پٹاخہ بھی پھٹ جاۓ تو بھگدڑ مچ جاتی ہے۔


مولانا اعظم طارق شہید کو یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ وقت کے بڑے بڑے جید علماء مفتیان شیخ الحدیث آپ کا احترام کرتے تھے اور خود سے زیادہ اعظم طارق شہید کو مرتبہ و مقام کا مستحق سمجھتے تھے، چونکہ جن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا اعظم طارق شہید نے کیا ان سے سب واقف بھی تھے۔ اعظم طارق شہید کو حکمرانوں کی جانب سے بڑے بڑے عہدوں کی پیشکش کی گئ مگر انہوں نے ان بڑے بڑے عہدوں وزارتوں کے بدلے ابو بکر عمر عثمان علی معاویہ امی عائشہ کی ناموس کے لیے جیل ہتھکڑی بیڑی کو پسند کیا، وہ مرد قلندر تین مرلے کے کراۓ کے مکان میں رہ کر بھی ہاتھ میں آۓ ہوۓ بڑے بڑے عہدوں کو ٹھکرا گیا۔

 

حکمران بھی پریشان ہو گے کہ کیسا دیوانہ ہے یہ اسے نہ خریدا جا سکتا ہے، نہ یہ مار پیٹ جیل ہتھکڑی سے ڈرتا ہے۔ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹنے والے اس مرد قلندر کی  شہادت کی وجہ بھی یہی بنی کہ یہ کمپرومائز نہیں کرتا۔ یہ جب اسمبلی میں گرجتا تھا تو اسمبلی فلور پہ لرزہ طاری ہو جایا کرتا تھا، اس مرد مجاہد کی گونج ایران کے اعوانوں میں لرزہ طاری کر دیتی تھیں۔ 

جہاں یہ جرت و بہادری کا ایک پیکر تھے باطل قوتوں کو شیر کی طرح للکارنے والے اس عظیم انسان کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالی جاۓ تو سادگی ان پہ ختم ہوتی تھی۔ ان کی شہادت کے بعد ماہانہ خلافت راشدہ نے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں ان کی زندگی کی تمام معلومات لکھیں گیں تھی۔ ان کے شہادت پر ملک کے نامور علماء اور سیاستدانوں کے تاثرات بھی اس کتاب میں محفوظ ہیں۔ کتاب کا ٹائیٹل ہے (اعظم طارق شہید نمبر) 


اعظم طارق شہید کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ اپنے کارکنوں سے بے حد شفقت کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی شہادت کے بعد کارکنان ایسے محسوس کرنے لگے کہ جیسے ان کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا ہو۔ اصحاب رسولﷺ کی ناموس کے لیے زندگی کے کئ سال سلاخوں کے پیچھے کال کوٹھڑیوں میں گزارنے اور ہر طرح کا تشدد برداشت کرنے پر آپ کو جبل استقامت کا لقب ملا۔ 


اعظم طارق شہید  علماء اکرام سے لے کر مدارس کے طلباء تک مدارس کے طلباء سے لے کر عام سنی عوام  تک سب کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ جھنگ کی سرزمین پر جس انداز سے اعظم طارق شہید نے تن تنہا جھنگ کی عوام کے حقوق کی جنگ لڑی آج بھی جھنگ کی عوام ان کے شکر گزار ہیں جس کا واضح ثبوت الیکشن 2018میں جھنگ کی عوام نے معاویہ اعظم کو فتحیاب کر کے دیا ہے۔ 



اعظم طارق کو 5اکتوبر2003 کو اسلام آباد میں  داخل ہونے کے بعد گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ان کے ساتھ ان کے چار محافظ بھی شہید ہو گے تھے۔  ایک اخبار کے مطابق ایک سفید پجیرو اعظم طارق شہید کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس سے آگے بڑھی اور سڑک پر کسی ایکشن فلم کے منظر کی طرح گھومتے ہوئے اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ پجیرو میں سے تین افرد اچھل کر باہر نکلے۔ اور خودکار ہتھیاروں سے اعظم طارق شہید کی گاڑی پر تین اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دو سے تین منٹ کے اندر 200 گولیاں برسائی گئیں۔ صرف اعظم طارق شہید کو 40 گولیاں لگیں۔ 


مولانا اعظم طارق شہید پاکستان میں اپنے وقت کے طاقتور ترین راہنماؤں میں سے ایک تھے۔جو حق و سچ کو ڈھنکے کی چوٹ پر بیان کرتے تھے۔


ازقلم:  محمد اشرف

یہاں کلک کر کے ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں


پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔


صفحہ اول پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں

2 تبصرے:

  1. اللہ حضرت کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور تاقیامت امت میں ان جیسا لا بنے کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں

Bottom Ad [Post Page]