کھولیاں درویش آباد کا تعارف اور کچھ معروف شخصیات کا تذکرہ جنہوں نے اپنے علاقے میں مثالی خدمات پیش کیں
28اپریل2018بروز ہفتہ
از قلم: محمد اشرف📝
اس تحریر کو سیاسی مذہبی اختلافات کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ انتہائ غیرجانبداری سے لکھا گیا ہے۔ باوجود اس کے اگر کوئ الفاظ یا جملہ آپ کو ناپسندیدہ لگے تو اس کے لیے ایڈوانس معذرت۔
کھولیاں درویش آباد سطح سمندر سے اوسط بلندی 971میٹر3188فٹ پر پاکستان کےصوبہ خیبرپختونخواہ کےضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کےیونین کونسل گھنول کا اک خوبصورت گاؤں ہے،کھولیاں درویش آباد کو کھولہ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس کے ساتھ درویش آباد کا اضافہ وہاں پر مدفون اک بزرگ کی نسبت سے ہے، بزرگ اللہ والے تھےاور ان کو درویش باجی کے نام سےپکارا جاتا تھا، آج اسی بنا پر اس علاقے کو کھولیاں درویش آباد کہا جاتا ہے،
کھولیاں درویش آباد میں کئ محلے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں
پولی والا یہ مرکز ہے اس علاقے کا اس کے علاوہ اپرکھولہ،چیٹرآلہ، ڈھیری زمان،چٹھہ، بیدہ،جموں نکہ، گدی، مانگپائ، باڑی،سیل، نلہ نکہ، کھیت، بٹہ، کلانگہ شامل ہیں
کھولیاں درویش آباد میں سے کاغان ناران کو جانے والی مین شاہراہ گزر کر جاتی ہے، بظاہر یہ اک پہاڑی علاقہ ہے، دریا کنہار کا بھی یہیں سےگزر ہوتا ہے جو اس علاقے کی خوبصورتی کا باعث ہے، اک چھوٹی سی آبشار بھی یہاں پر ہے جو ڈھیری اور اپر کھولہ کےدرمیان سے ہوتی ہوئ مہری پولی آلہ باڑی سےگزر کرسیل کے مقام سے دریاۓ کنہار میں جا کر گرتی ہے، اسی طرح کی دوسری نہر جو بیدہ اور ڈھیری زمان کےدرمیان سے ہوتی ہوئ ڈبل موڑ اور مانگپائ سے گزر کر دریاۓ کنہار میں مل جاتی ہے، ان نہروں سے لوگ اپنی فصلوں کو بھی سیراب کرتے ہیں، آپ کو بتاتا چلوں اس علاقے میں تین قسم کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں گندم، مکئ اور چاول اس علاقے میں ناشپاتی،اخروٹ، آڑو اور خوبانی جیسے قیمتی فروٹ بھی پاۓ جاتے ہیں،
گاجر،مولی،شلغم، ٹماٹر، مٹر آلو،پیاز اور لہسن بھی اس زمین سے اگاۓ جاتے ہیں،
یہاں پر تقریبا"99فیصد لوگ گوجری زبان بولتے ہیں،
یہاں پر لوگ انتہائ خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں، یہاں کی عورتیں انتہائ کم تعلیم یافتہ مگر اپنے شوہروں کی فرماں بردار انتہائ صابر و شاکر ہوتی ہیں، مال مویشی ہر گھر میں رکھا ہوتا ہے، مویشیوں کو چارہ دینےکےلیے گھاس کاٹ کر خشک کیا جاتا ہے اس کام کو اکثر نوجوان کرتے ہیں، مگر گھاس کٹائ ہو کہ فصل کٹائ اکثر خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائ دیتی ہیں
کھولیاں درویش آباد کے مرکز میں چھوٹا سا بازار ایک جامع مسجد اور ایک ہسپتال واقع ہے 2005کےذلزلہ سےقبل اس علاقےکی جامع مسجد میں مسلکی اختلافات کی بنا پر لڑائ ہوئ جسکے بعد مسجد کو تالا لگا دیا گیا اور مسجد میں جمعہ پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئ 2سال کےطویل عرصے بعد مسجد کو دوبارہ کھولا گیا اور اک سرکاری خطیب مقرر کر دیا گیا جس کے پیچھے دونوں فریقین نمازیں ادا کرتے،2005کےذلزلےمیں مسجد کی عمارت بھی شہید ہو گئ اور لوگ بکھر گے مسجد کی جگہ کو ایک بار پھر کم اکثریت رکھنے والے مسلک نے سٹ کیا اور نماز جمعہ ادا کرنا شروع کی جو آج تک جاری ہے
متنازعہ مسجد کا کیس عدالتوں میں بھی چلتا رہا اور عدالت سےبھی وہ لوگ کامیاب ہوۓ جن کے پاس آج بھی مسجد کا کنٹرول ہے، اور یوں اس علاقےمیں عوام دو فرقوں میں تقسیم ہو گئ اور عیدین کی نمازیں دو جگہوں پر ادا کی جانے لگیں جو سلسلہ آج تک چل رہا ہے
اس علاقےمیں چند پرائمری سکولز اور ایک ہسپتال بغیر بلڈنگ کے موجود ہے، 2005کےذلزلے میں ہسپتال کی عمارت تباہ ہوئ تھی تاہم اب تک دوبارہ تعمیر نہ ہو سکی،،
کھولیاں درویش آباد میں علماء اکرام حفاظ اکرام کی کثیر تعداد ہے، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہریپور،اسلام آباد، لاہور،سمیت پاکستان کےدیگر شہروں میں کھولیاں درویش آباد کےعلماء اکرام دین کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں سعودیہ عریبیہ میں بھی کھولیاں کے علماء اکرام اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، کھولیاں درویش آباد میں اپنی دینی سیاسی سماجی خدمات سے شہرت پانے والے اک عظیم انسان جو آج اس دنیا میں تو موجود نہیں مگر انکی خدمات کی بدولت ان کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالی نے ان کا نام لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے،
میری مراد حضرت مولانا قاری محمدافضل صاحب رحمت اللہ علیہ
ہزارہ ڈویژن کی مذہبی وعلمی شخصیات میں ایک ممتاز نام حضرت مولانا قاری محمد افضل صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ہے جن کا تعلق بالاکوٹ کھولیاں سے تھا۔حضرت قاری صاحبؒ کو اللہ تعالی نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا ان میں سے چند نمایاں خوبیاں جن کا ذکر ضروری ہے درج ذیل ہیں۔حضرتؒ کی سادگی ودرویشی ، وتقوی،سنجیدگی،مستقل مزاجی کے ساتھ ایک بھرپور تحریکی ونظریاتی جدوجہد،مضبوط ومربوط سماجی وعلاقائی تعلقات یہ وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے علاقہ بھر میں حضرت کی شخصیت کو ہر دلعزیز اور مقبول بنایا ۔مخالفین سے تحمل وبردباری سے پیش آنا اور سخت سے سخت حالات میں مخالفت کے باوجود تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے مگر حضرت ؒ کے مخالفین بھی اس حق میں ضرور گواہی دیں گے۔
قابل رشک جرات وبہادری کے حامل تھے جس بات کو حق سمجھا اس کے اظہار میں کوئی باک نہیں رکھتے تھے ۔
کھولیاں کے بہت سے سیاسی وسماجی مسائل والجھنوں کو حضرت ؒ نے اپنے حکیمانہ ومصلحانہ طرز عمل سے سلجھایا ۔
کھولیاں کے بیسیوں حفاظ،قراء اور علماء کرام حضرتؒ کے فیض یافتگان میں شامل ہیں۔جو حضرت ؒ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں ۔
مانسہرہ میں رہائش پذیر ہونے اور اپنی مصروف ترین زندگی کی گہماگہمیوں کے باوجود علاقے یا گاؤں کھولیاں میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس حل کے لئے ہمہ تن متوجہ ہو جاتے اور مسئلہ کے حل تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔یہ انکا اپنے علاقے اور گاؤں کے لوگوں سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
یہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ بھی حضرتؒ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے ان پر دل وجان سے فدا تھے ۔
اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا حضرت نے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔
حضرتؒ کی سیاسی وابستگی زمانہ شباب سے لے کر تا دم آخر اکابرین دیوبند کی نمائندہ سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام سے رہی حضرت نے تین مرتبہ جمیعت علماء اسلام کے ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور اس سلسلے میں ہر طرح کے علاقائی لسانی اور برادری مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ نظریاتی سیاست کو فروغ دیا حضرت کا یہ طرز عمل آج کل کے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت کی پوری زندگی میں یہ سبق مضمر ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں اور فضا چاہے جتنی ہی ناساز ہو مگر اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنا کبھی بھی اہل حق کا وطیرہ نہیں رہا۔
کھولیاں درویش آباد کی اک معروف شخصیت جنہیں عام طور پر بابو صاحب کہا جاتا ہے، حضرت کا پورا نام بابو عزیز الرحمن ہے، یقینا" آپ نے دیکھا ہوگا، رتہ کھہڑا کے مقام پر مین سڑک پر "بہائ" سٹاپ کے نام سے بورڈ نصب ہے، دراصل گوجری کا لفظ ہے(پہائ، بہائ)اور یہی لفظ بابو صاحب کےلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے،،
اس کا راز کیا ہے میں وہ آپ کو بتاتا ہوں،
کھولیاں کےگجر ہوں یا ہزارہ ڈویژن میں کہیں سے بھی جب وہ گھر سے باہر بازار میں شہر میں دوران سفر گاڑی وغیرہ میں ہوں تو دوسرے ساتھی کے ساتھ یا فون کال پر اپنی زبان گوجری میں بات نہیں کرتے،، اسےکہا جاتا ہے، احساس کمتری کا شکار،،، اس چیز کے خلاف بابو صاحب نے الم جہاد بلند کیا، گاڑی ہو بازار ہو کہ ان کے محکمے کے افسران سے ان کی گفتگو انہوں نے ہمیشہ گوجری زبان بولی اگر یوں کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا کہ بابو صاحب گوجری زبان کے محافظ ہیں، ان کی وجہ سے گوجری زبان کو تقویت اور عزت ملی بابو صاحب نے علاقہ بھر میں بےشمار خدمات انجام دیں، جن کا تذکرہ پھر کبھی تفصیل سے کریں گے،،
اسی علاقے کی اک اور معروف شخصیت جو کسی تعارف کے محتاج نہیں حضرت مولانا میاں عبدالرشید صاحب خطیب کیوائ،،، ان کا نام پڑھ کر آپ کے دل پر لا الہ اللہ کا ورد جاری ہو گیا ہوگا،، حضرت کی جادوئ آواز اور پھر حمد و ثنا ذکر کی محفل میں جو اک بار بیٹھ جاۓ وہ ان ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے،، مولانا عبدالرشید صاحب سمیت تمام علماء اکرام کا خدمات کو انشاء اللہ تفصیل سے بیان کیا جاۓ گا،،
اس علاقے میں ایک محلہ جو نلہ کھیت کے نام سے پکارا جاتا ہے، کو استادوں کا محلہ بھی کہا جاتا ہے،سنہ1940میں مولانا عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ دارلعلوم دیوبند انڈیا سے تعلیم حاصل کرکے جب آۓ تو کھولیاں درویش آباد کےبزرگوں نے انہیں اپنا امام اور خطیب مقرر کر لیا،مولانا عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ نے 15پندرہ سال تک کھولیاں کی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے، ان کی وفات کے بعد اہل علاقہ نے متفقہ طور پر ان ہی کے صاحبزادے مولانا نبی الحق صاحب کو خطیب مقرر کر دیا جنہیں تقریبا" جامع مسجد میں خطابت کرتے ہوۓ 35سال کا عرصہ بیت گیا ہے،
مولانا نبی الحق صاحب خطابت کے علاوہ اپنے محلے کی مسجدمیں تدریس کا کام بھی جاری رکھے ہوۓ ہیں، یاد رہے: مولانا نبی الحق صاحب سے ناظرہ قرآن پڑھنے والی یہ تیسری نسل ہے، یعنی آج کل جو بچے مولانا نبی الحق صاحب کی کلاس میں بیٹھ کر قرآن سیکھ رہے ہیں ان کے دادوں نے بھی مولانا نبی الحق صاحب سے قرآن سیکھا، یہی وجہ ہے کہ اس محلے کو استادوں کا محلہ بھی کہا جاتا ہے،
اس علاقے میں کوئ ہائ مڈل سکول نہیں باوجود اس کے یہاں کے نوجوانوں نے دور دراز جا کر اپنی تعلیم جاری رکھی اور علاقے کا نام روشن کیا، نوجوانوں کی قابلیت سے یاد آیا مولانا نبی الحق صاحب کے چھوٹے فرزند احتشام الحق نے جب گھنول سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو گورنمنٹ ہائ سکول گھنول کی تاریخ کے سب سے زیادہ800نمبر لےکر ایک ریکارڈ قائم کر ڈالا جو آج تک احتشام الحق اور کھولیاں درویش آباد کے پاس ہے، آج تک وہ ریکارڈ ٹوٹ نہ پایا جو کھولیاں درویش آباد کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے نہ صرف فخر ہے بلکہ بہترین ٹیلنٹ ہونےکا ثبوت دیتا ہے- ٹیلنٹ کی یہاں پر کوئ کمی نہیں اگر تعلیمی سہولیات میسر ہوں تو کھولیاں کے نوجوان کچھ کر دکھانے کے قابل ہیں۔
یہاں پر اساتذہ کی بھی اک کثیر تعداد ہے۔ جو دوسرے علاقوں میں جا کر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔اگر ایک ایک ٹیچر کا نام حوالہ لکھا جاۓ تو تحریر بہت لمبی ہو جاۓ گی۔ اساتذہ کی تفصیلات آئندہ کبھی شیئر کریں گے اگر اللہ نے چاہا تو۔
میرے پاس کچھ ایسے نوجوانوں کی لسٹ بھی پڑی ہے جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی عہدوں پر تعینات ہوۓ اور اپنے علاقے کا نام روشن کیا۔
اس علاقے میں ماضی قریب میں(حسنین کریمن)ویلفیر سوسائٹی کے نام سے اک تنظیم بنی جن کے بانیوں میں حافظ شمس الدین صاحب کا نام بھی سرفہرست ہے، اس تنظیم نے علاقے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا،، اس تنظیم سے منسلک لوگوں اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے بالکل اک الگ پوسٹ لگاؤں گا انشاء اللہ
اس علاقے کے چند بزرگ جو اب اس دنیا فانی سے کوچ کر گے، بابا درویش، میاں محی الدین باڑی، میاں محمدامین سیل، باغ والا بابا سیل یہ ان لوگوں کاشمار انتہائ نیک اور اللہ والوں میں ہوتا ہے۔
کھولیاں درویش آباد میں کئ بلدیاتی نمائندے بنے
جن میں سردار عبدالرحمن مرحوم چیئرمین محمدزمان مرحوم، شاہزمان مرحوم کے علاوہ جو لوگ حیات ہی سابق جنرل کونسلر ڈاکٹر غلام نبی، اور موجودہ کسان کونسلر لالہ محمدنزیر سردار فیاض الرحمن جنرل کونسلر اور مولانا عبدالقادرجنرل کونسلر شامل ہیں،،
کھولیاں درویش آباد کے مرکزی بازار میں موسم گرما میں بڑی بہار ہوتی ہے، ملک بھر سے وادی کاغان کی سیاحت کو جانے والے لوگ کھولیاں درویش آباد کےخوبصورت بازار سے گزرتے وقت رک کر حسن کھولیاں درویش آباد سےلطف اندوز ہوتے، چاۓ پکوڑے اور ٹھنڈی بوتلیں سیاحوں کے انجواۓ کرنے کےمزے کو دوبالا کر دیتی ہیں،
کھولیاں درویش آباد کے ماضی کے دکانداروں کی بات کی جاۓ تو بہت بڑے اور قابل احترام نام ملتے ہیں، جن میں بابا عبدالخالق مرحوم میاں فضل الحق صاحب دکاندار یونس میاں اور علاقے کی پہچان جناب سردار میاں عبدالرحمن مرحوم شامل تھے
قدرتی پانی قدرتی تازہ ہوائیں سرسبز و شاداب جنگلات لمبےلمبے درخت کھولیاں درویش آباد کےحسن کو رنگ بخشے ہوۓ ہیں،،،
تحریر پسند آۓ تو اپنے سوشل اکاٶنٹس پر شیئر کریں۔
نوٹ: ہر خاص و عام کو تحریر کاپی کرنے کی اجازت ہے۔
اس تحریر کو ترتیب دینے میں تعاون حاصل رہا۔👇
رائیٹر : محمد اشرف
معلومات کی فراہمی میں کردار ادا کیا مولانا سعدافضل سعیدی صاحب اور مولانا اعجاز احمد صاحب نے
اس تحریر کی ابتدائ تشہیر کر کے لوگوں کی توجہ اس موضوع کی طرف لانے کا سہرا محمد سلیم تبسم صاحب کو جاتا ہے۔
ان تمام حضرات کا شکریہ جنہوں نے اس تحریر کا ابتدائ خلاصہ شائع ہونے پر دلچسپی لیتے ہوۓ۔ کچھ چیزیں مزید ایڈ کرنے کی تجویز دی تھی۔ سپیشلی حاجی ارشاد صاحب حاجی حبیب الرحمن صاحب۔اور دیگر تمام حضرات۔
ان شاء اللہ اپنے علاقے کے چھپے ہوۓ موتیوں کی دینی سیاسی و سماجی خدمات کا آئندہ بھی تذکرہ جاری رکھیں گے۔
اپنی دعاٶں میں💝دل سے یاد رکھیے گا۔
فی امان اللہ
Muhammad Ashraf
Contact Number📱 0345 56 41 735
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں