محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

عروج آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا راہ مہ کامل نہ بن جائے

شاعرِ مشرق نے یہ شعر نہ معلوم کس تناظر میں کہا تھا، فی الحال یہ موضوع زیرِ بحث نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آدمِ خاکی کو بھی وہ عروج نصیب ہوا کہ مہ کامل کی حیثیت بھی گردِ راہ سے زیادہ نہ رہی۔ جس کے جلو میں ایک دو نہیں بلکہ ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ نیّرانِ تاباں و درخشاں ہوں، جن کے وجود سے دنیا کا ہر کونہ و زاویہ روشن و درخشاں ہو، جس کے وجود کی خوشبو سے دنیا کا ہر ذرّہ مہک رہا ہو اُس کے سامنے مہ کامل کی حیثیت بھی حبابِ ناتواں سے کچھ ہی زیادہ ہوگی جو بہرحال قابلِ ذکر نہیں۔

گو’’مہ کامل‘‘ کی تعبیر بھی اپنی جگہ شان اکملیت کے ہر پہلو پر مشتمل ہے ، لیکن جہاں تحریر و تقریر میں مبالغہ جائز ہو، لکھتے لکھتے نوک ہائے قلم ٹوٹنے کو ہوں لیکن قلم کا دل ہنوز پیاسا ہو، جہاں دنیا میں اگنے والی ہر کونپل اُس قلم کی صورت میں ڈھل جانے کی تمنائی ہو جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف شؤن میں مدح سرا ہو، جہاں طویل زندگیاں گزارنے کے بعد بھی صاحب آواز کو اپنی آواز صدا بہ صحرا لگتی ہو وہاں ’’مہ کامل‘‘ کی تعبیر محض تعبیر برائے تعبیر ہی رہ جاتی ہے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس موضوع ہی ایسا ہے کہ لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا، کہنے والوں نے بہت کچھ کہا، لیکن کہنے اور لکھنے کو اب بھی اتنا باقی ہے کہ گویا ابھی نہ کہنے کی ابتدا ہوئی ہے اور نہ لکھنے کی۔ کہنے والوں نے کہتے کہتے زندگیاں گزار دیں، لکھنے والوں نے لکھتے لکھتے زندگیاں گزار دیں، بہتر سے بہتر کی خواہش میں نئی نئی تعبیرات اور اسالیب و انداز اختیار و اختراع کیے جاتے رہے، کسی نے ’’ فمبلغ العلم أنہ بشر وأنہ خیر خلق اللہ کلھم‘‘ کہہ کر اپنی حیرت وبے بسی کا اظہار کیا، کسی نے ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کا سہارا لیا ، کوئی ’’ و صلی اللہ علی نور کہ زو شد نورھا پیدا ، زمیں از حب اُو ساکن فلک در عشقِ اُو شیدا کہہ کر رہ گیا، کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ۔ اپنی اپنی وسعت علمی اور بلندی وجدان کے زور پر کہنے والے کہتے رہے اور لکھنے والے لکھتے رہے ، لیکن بھلا کون کہنے والا ہے جو اپنی کہہ کر یا لکھنے والا اپنی لکھ کر مطمئن ہو بیٹھا ہو کہ بس اب اس موضوع کا حق ادا ہوگیا ، اب اور لکھنے کی یا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ کہنے والے بھی اور لکھنے والے بھی سوچوں میں گم دکھائی دیتے ہیں کہ کوئی ایسا نیا انداز مل جائے ، کوئی ایسا عمدہ اسلوب دستیاب ہوجائے جس کے سہارے بارگاہِ رسالت میں رسائی کا موقع مل سکے۔

محققین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا گوشہ گوشہ چھان مارا کہ زندگی کا کوئی تو پہلو ایسا ملے جس کی سعادت سے اب تک قلم محروم اور زبانیں خاموش رہی ہوں، کچھ تو ایسا ہو جس میں سبقت لے جانے کا موقع کسی کو مل سکے ، لیکن یہاں ہماری ممدوح شخصیت کا حال یہ ہے کہ دنیا کی واحد ذات گرامی ہے جس کی زندگی کا ہر گوشہ ، ہر پہلو روزِ روشن کی طرح سب کے سامنے ہے ، لیکن دنیا ہے کہ نہ کہنے سے تھکتی ہے اور نہ لکھنے سے ہاتھ روکنے کا عزم و ارادہ ہے ، کسی کی زبان ہی گنگ یا ہاتھ ہی شل ہو تو کوئی کیا کرے۔

اپنی آسانی اور سہولت کے لیے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو مختلف ادوار میں تقسیم کرلیا ہے ۔ مثلاً پہلی تقسیم کے دو حصے ہیں: ۱ زمانہ قبل از بعثت۔ ۲ زمانہ بعد از بعثت۔

دوسری تقسیم زمانہ قبل از ہجرت اور زمانہ بعد از ہجرت پر مشتمل ہے۔ اور اسی طرح رفتہ رفتہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ 

یہ حیرت انگیز واقعہ اسی دوسری تقسیم کے پہلے حصے یعنی زمانہ قبل از ہجرت میں پیش آیا۔ وقت کا تعین یقینی نہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں دس اقوال نقل کیے ہیں ، جن میں سے آٹھ اقوال پر غورو فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ واقعہ معراج حضرت خدیجہ رضٰ اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے پیش آیا، اس لیے یہی قول راجح قرار دیا گیاہے۔ حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ سیرت المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ یہ امر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئیں اور یہ بھی مسلم ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شعب ابی طالب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد ان کا انتقال ہوا ۔ اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء شعب ابی طالب سے ۱۰ نبوی میں باہر نکلے ہیں۔ لہٰذا ان تمام مقدمات سے نتیجہ یہی نکلا کہ معراج ۱۰ نبوی کے بعد ۱۱ نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد کسی مہینے میں ہوئی۔ رہا یہ امر کہ کس مہینے میں ہوئی ۔ اس میں اختلاف ہے ، ربیع الاوّل یا ربیع الآخر یا رجب یا رمضان یا شوال میں ہوئی ۔ پانچ قول ہیں ، مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب میں ہوئی‘‘ (سیرت مصطفی ﷺ:۱/۳۲۴)

اور ہمارے ہاں راجح بھی یہی ہے کہ واقعہ معراج رجب کی ستائیسویں تاریخ کو پیش آیا۔ بعض بزرگوں نے مختلف اقوال بھی بیان فرمائے ہیں ، لیکن یہ اختلاف قابل اعتنا نہیں ہے، کیوں کہ واقعہ یقینی ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ سچی اور حقیقی تحریر ’’قرآن کریم‘‘ اس پر گواہ۔ سورہ اسراء کی پہلی ہی آیت ملاحظہ فرمالیجیے۔ اہل اسلام کے لیے تو یہی شہادت کافی و وافی ہے ، لیکن غیر مسلموں اور ان مسلمانوں کے لیے جو اس کو خواب کا واقعہ یا محض قصہ قرار دیتے ہیں عقلی دلائل کی بھی کمی نہیں۔

گویہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واقعہ صرف جیتی جاگتی محسوس زندگی ہی میں پیش نہیں آیا بلکہ عالم خواب میں بھی پیش آیا، لیکن اس کو کواب ہی کے انداز میں بیان کیا گیا، کوئی ایسا انداز یا پیرایہ اختیار نہیں کیا گیا جس پر حقیقت کا گمان ہو اور اگر ہو بھی تو کیا حرج ہے ؟ انبیائے کرام کے خواب بھی تو حقیقت ہی ہوتے ہیں ۔ کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

یہ بالکل عام فہم سی بات ہے کہ فطرت سچائی کا تقاضا کرتی ہے ، خلاف واقعہ بات یا غیر حقیقی تمثیلات یا کسی کی فہم قاصر زمینی حقائق کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو شخص جس مقام سے جتنا دور ہوتا ہے اسے اتنا ہی ناقابل رسائی اور غیر حقیقی سمجھتا ہے ، کیا یہ سچ نہیں کہ آج ایک عام اَن پڑھ دیہاتی سے اگر کہا جائے کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے ، وہ یہ بات سمجھ ہی نہیں پاتا کہ کہاں چاند اور کہاں انسان۔ کیا یہ غلط ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ ہوائی جہاز کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ، ان کی عقل اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ این ٹنوں وزنی جہاز کیسے اتنے بہت سے انسانوں اور ان کے سازو سامان کو لے کر لمحوں میں کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے ، لیکن کیا کسی نے کسی کی عقل کی نا رسائی کی بناید پر ان حقائق کا انکار کیا،کوئی مانے یا نہ مانے۔جہاز تو اڑتے ہی ہیں اور لمحوں میں نگاہوں سے اوجھل بھی ہوجاتے ہیں۔

کچھ ایسی ہی صورتِ حال واقعہ معراج کے ساتھ بھی ہے ، کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کی عقل ہی اس حیرت انگیز واقعے کو سمجھنے سے قاصر ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو معاند ہیں، جان بوجھ کر مخالفت کرتے ہیں، ان کا تو کوئی علاج نہیں، البتہ جن لوگوںکی فہم نا رسا ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے ان کو تو یہ سمجھایا جاسکتا ہے کہ آپ کی عقل و فہم میں تو اور بھی بہت سے باتوں کے لیے گنجائش نہ ہوگی تو کیا محض آپ کی عقل و دانش کی بنیاد پر زمینی حقائق اور عالم محسوسات میں ہونے والے ایک واقعے کا انکار کردیا جائے، اور آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایک زندہ جاوید حقیقت کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جائے؟ ایک ایسی حقیقت جس نے دنیا میں بسنے والے انسانوں پر ایسے مثبت اثرات چھوڑے کہ اگر انسان ان اثرات کو قبول کر لے اور نشان منزل بنالے تو کوئی شک نہیں کہ وہ بُھولے بھٹکے بغیر شاداں و فرحاں منزل تک جا پہنچے۔

یقینا یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جو ہمارے ہاں قطعی و یقینی ہے ۔ اس میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والا خود ہماری نگاہوں میں مشکوک ہوجاتاہے ، لیکن اس واقعے کے فوراً بعد ایک اور حیرت انگیز واقعہ ہوا ۔ یہ واقعہ سچائی کی فتح کا واقعہ ہے، ایک انسان کے دوسرے انسان پر اعتماد کا حقیقی مظہر ہے ، اعتماد ہو تو ایسا ، محبت ہو تو ایسی ۔ شاعر مشرق ہی کے بقول:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل 

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے 

کا عملی مظہر اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوگا؟ جب تمام عقلی موشگافیوں کو پس پشت ڈال دیا گیا، سوچ بچار کے پُھوٹتے سوتے حیرت سے تھم گئے، عقل و دانش بھی حریت سے انگلی دانتوں میں دبائے یہ منظر دیکھ رہیتھی کہ دل نے ایک لمحہ بھی توقف نہیں کیا اور فوراً ہی کہہ دیا:’’اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو سچ ہے ‘‘۔ اور ہمیشہ کے لیے ’’صدیقیت‘‘ کا مظہر اعلیٰ بن گیا۔ گویا ایک انعام تھا جو سچائی کو سچ سمجھنے اور اس کے برملا اظہار کردینے کے عیوض میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطا کیا گیا۔

یہ بھی ایک فطری حقیقت ہے کہ جو شخص جس مقام سے جتنا قریب ہوتا ہے اُتنا ہی اُسے سہل الوصول اور قابلِ رسائی سمجھتا ہے ۔ اور بھلا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون قریب لہوگا کہ جنہیں قربِ زمانی و مکانی ہی نہیں بلکہ جوہری قربت بھی عطا کی گئی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :’’ مجھے ابوبکر اور عمر کو ایک ہی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ اس پر شاہد ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اس سچائی سے اور کون واقف ہوسکتا ہے ۔ 

ماہر فن اگر کسی حقیقت کا اظہار کرے اور اُسی فن کا کوئی دوسرا ماہر اس کی بیان کردہ حقیقت کو بلا چوں چرا تسلیم کرلے تو یہ بات فن کی مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے ، کوئی غیر متعلق آدمی اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے یا اس میں شکوک و شبہات کا اظہار کرے تو کوئی توجہ نہیں سمجھا جاتا، بھلا موچی کو کیا حق کہ دل کے ماہر سرجن کی بات ماننے سے انکار کرے یا محض اپنی فہم ناقص کی بنیاد پر تعجب کا اظہار کرے۔ تو جن لوگوں کی حیثیت تقدس مآب شخصیات کے مقابلے میں موچیوں کی سی بھی نہیں اُن کی باتوں پر توجہ دینا اور قابل اعتنا سمجھنا بجائے خود ضیاع وقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن چوں کہ علم سے دوری اور تفریحات میں مشغولیت عام ہے لہٰذا اس قسم کی عقل خوردہ باتوں سے عوام الناس اور ہم عقیدہ غالب اکثریت میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتا ہے ، لہٰذا متشککین کے درپئے آزار ہونا بھی از بس ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ معراج کا یہ واقعہ عالم محسوسات کی ایک تاریخی حقیقت ہی نہیں بلکہ عالم وجدانیات کے رگ و پے میں سمائی ہوئی ابدی اور فطری سچائی بھی ہے ۔ متشککین و مخالفین کی عقلیات اور تردیدات کی کوئی حیثیت نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ جو جتنا قریب ہے اس کا مشاہدہ اتنا ہی حقیقی اور سچا ہے ۔ آنکھیں سب کی کھلی ہیں، عالم محسوسات و حقائق ہو یا وجدانیات و روحانیات، شعور انسانی سب کی گرہیں کھول چکا ہے ، بس بات صرف اتنی ہے کہ جو جتنا دور ہے اتنا ہی سمجھنے سے قاصر ، جو جتنا غافل اتنا ہی مخالف۔ اور یہ بھی ایک فطری حقیقت اور ابدی سچائی کہ عقل کی گتھیوں میں الجھا ہر شخص عقل مند نہیں ہوتا، لہٰذا کسی عقل مند کی باتوں میں الجھ کر نشانِ منزل کو کھودینا حماقت ہی تو ہے ۔ معراج کیا ہے؟ انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟یہ مستقل توجہ طلب موضوعات ہیںجن کی طرف متوجہ ہونے کے لیے فرصت بھی درکار ہے اور اہلیت بھی۔ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معراج کے فلسفے کو سمجھنے اور ایسا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجے میں انسانیت قربِ حقیقی سے نوازی جائے ار جب اس پر حقیقتِ محمدیہ آشکارا ہو تو بے اختیار کہہ اٹھے:

جیوں تو ساتھ سگانِ حرم کے تیرے پھروں

مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور ومار

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]