محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

۔

محتاط الفاظ میں کچھ تلخ حقائق کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

آج کے دور میں پوری دنیا میں زنا کی شرع بڑھتی جا رہی ہے۔ زنا کے اڈے قائم ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اگر بات کی جاۓ تو یہاں سب سے زیادہ یہ فعل نظر آۓ گا۔

بعض لوگوں کے نظریات کے مطابق سیکس کی کھلی اجازت ہونا چاہیے۔

مگر ہم بحثیت مسلمان اس چیز کو مناسب نہیں سمجھتے۔ چونکہ شریعت نے اس کے برعکس متبادل اور آسان حل نکاح بتایا ہوا ہے۔

بعض لوگ زنا کے بڑھتے رجحان کا ذمہ دار کیبل ڈیش انٹرنیٹ اور موبائل فون کو قرار دے رہے ہیں۔ 

ممکن ہے اس سے بھی کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مگر بڑی اور بنیادی وجہ کچھ اور ہے۔

ایک بات اور بنیاد میں ہی عرض کرتا چلوں۔ آجکل سو میں سے ستر فیصد مردوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر خوبصورت لڑکی یا عورت ان کے بستر کی زینت بنے۔ سڑک پر چلتی عورت ہو یا گاڑی میں بیٹھی باپردہ عورت اکثر مردوں کی نظر عورت کے جسم پر جم کر ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔

یہ خرابی نہ صرف عام عوام میں ہے بلکہ الحاج صاحب سے لے کر مولوی مفتی مدارس کے سٹوڈنس تک اگر لفظ مولوی یا مفتی پر آپ کو غصہ آرہا ہے تو مفتی عبدالقوی صاحب اس کی زندہ و جاوید مثال آپ کے سامنے ہے۔

یعنی کہ مجموعی طور پر مرد کی فطرت ہی بدنظر بد خیال بد دیانت بن گئ ہے۔ چند اللہ والوں کے علاوہ۔

پھر غصہ آگیا نا  اچھا ایسا کریں ذرا اپنے ضمیر سے پوچھیں غیر محرم عورتوں کو دیکھ کر نظر بچانے کی کتنی کوشش کرتے ہیں۔ اگر جواب منفی آۓ تو پھر غصے کا جواز نہیں بنتا بھائیو۔


﴿اب آتا ہو میں اپنے عنوان کی طرف﴾


عورت جسم فروشی پر کیوں مجبور ہوتی ہے۔


آپ کے ذہن میں یقیناً اس سوال کا یہ جواب ہو گا کہ پیسے کے لیے!!

جی نہیں۔۔۔ تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟


پہلی بات عورت ہے کیا؟ جو ہمیں ہمارے رسولﷺ نے بتایا اس کے مطابق

عورت بیٹی ہے۔ عورت بہن ہے۔ عورت بیوی ہے۔ عورت ماں ہے۔

پانچواں کوئ آپشن نہیں دیا۔


سوال تھا عورت جسم فروشی پر کیوں مجبور ہوتی ہے؟


یہاں پر اتنا بتا دوں۔ عورت بھی انسان ہے۔ جس طرح مرد کو جینے کے لیے کھانا پینا ہوا لباس ضرورت ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی یہ چیزیں درکار ہوتی ہیں۔

اگلی بات:

تمام عورتیں جسمانی طور پر ایک جیسی ہوتی ہیں۔ دکھ درد غم بیماری خوشی غمی کی فیلنگ ایک جیسی ہوتی ہے۔

مگر

ایک تفریق بہت عیاں ہے۔جس کو ہمارا معاشرہ یوں بیان کرتا ہے ایک نمبر عورت اور دو نمبر عورت!!!!!

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا صرف عورت ہی دو نمبر ہوتی ہے۔


تو فوراً اس کا جواب سورۃ نور سے مل جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے بڑے واضع انداز میں جامع نقطہ سمجھا دیا۔

کہ ناپاک مردوں کے لیے ناپاک عورتیں اور ناپاک عورتوں کے لیے ناپاک مرد۔ 

پاکباز مردوں کے لیے پاک باز عورتیں اور پاکباز عورتوں کے لیے پاکباز مرد۔ (القرآن)

اس آیت کے مفہوم سے ثابت ہوا کہ مرد بھی ناپاک ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ناپاک ہوتی ہیں مگر ہمارے معاشرے میں چونکہ ناپنے کا پیمانہ تھوڑا مختلف ہے۔ جس سے مرد کو استثنی مل جاتی ہے۔


سوال ایک بار پھر دہرا دوں عورت جسم فروشی پر کیوں مجبور ہوتی ہے؟


اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ تمام عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

ہر عورت کی جنسی خواہشات ہوتی ہیں مگر ان کے لیے ان کا شوہر ہی کافی ہوتا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے اگر شوہر ہی کافی ہوتا ہے تو وہ گناہ کے راستے کا انتخاب کیوں کرتی ہیں؟ پھر سیکس گھر کیوں بناۓ گے ہیں؟ ان میں خواتین کہاں سے آتی ہیں؟

ضروری نہیں کہ ہر عورت خوشی سے اس راستے کا انتخاب کرے اس راستے پہ چلنی والی اکثر خواتین کے کردار کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہوتی ہے۔ جس کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم لوگ ہوتے ہیں۔

یاد رہے میں لفظ اکثر کا استعمال اس لیے کر رہا ہوں۔ کہ کچھ عورتیں فطرتاً بھی غلط ہوتی ہیں جن کے لیے قرآن پاک نے لفظ(خبیث)چنا ہے اس ذمرے میں مرد و عورت دونوں آتے ہیں لیکن موجودہ معاشرتی صورتحال کو اگر دیکھا جاۓ تو اس کے پیچھے کوئ مجبوری ہو گی۔

بہت ساری ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر بیمار ہیں کمانے والا کوئ نہیں غربت کی لکیر سے نچلی  سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

کئ خواتین بیوا ہیں۔ ذریعہ معاش کچھ بھی نہیں لیکن وہ اپنی پاکیزہ زندگی کو کسی بھی صورت داغ دار نہیں کرنا چاہتی ایسی صورت میں وہ اپنی غربت کی داستان کسی (خبیث)عورت کو سنا دے تو وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوۓ اسے سبز باغ دکھا کر ایسے شکنجے میں پھنسا دے گی کہ اب اس کے لیے اپنی پاکیزہ زندگی کو داغدار کرنے کے سوا کوئ چارہ نہیں ہے۔

ایک طرف غربت اور سر پر شوہر کا سایہ نہ ہونا اور دوسری طرف مکار قسم کی ایاشی کے اڈوں کی ٹھیکیدار عورتوں کے ہتھے چڑھ کر بلیک میل ہونے کے ساتھ ساتھ دن میں کئ مردوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی یہ عورت کیا خوشی سے یہ سب کر رہی ہو گی؟ 

اگر یہ سب نہ کرے تو کیا کرے کہاں جاۓ بچوں کی پرورش کیسے کرے؟

اور اگر یہ عورت اس راستے کے بجاۓ دوسرا راستہ اختیار کرے ملازمت کرنا جاب کرنا تو اس کے لیے بھی سب سے پہلے اسے ایسے ہی عذاب سے گزرنا ہو گا۔ نوکری کے چکر میں حراساں کرنا پھر بار بار بلیک میل کرنا۔ اور اگر یہ بھیک مانگنے جیسا قدم اٹھاۓ تو کئ اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ اسے وحشیوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا تو وہ کہے گا، سن میڈم جگہ ہے میرے پاس چلیں کیا؟ جب بازار میں ایک عورت نکلتی ہے تو اکثر مردوں کی نظریں ایسے فٹ ہو جاتی ہیں جیسے وہ کوئ مقناطیس ہے اور مردوں کی آنکھیں لوہا۔


ایک عورت کا شوہر فوت ہو گیا، کچھ عرصہ تو اس نے گزر بسر کیا مگر معاشی حالات بدتر ہوتے گے۔ گھر میں موجود قیمتی سامان بیچا کچھ دن اور گزرے اب بات فاقوں پہ آ گی بچے کھانے کی ضد کرنے لگے کام تلاش کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا ہوا۔

کسی سے ادھار مانگا تو شرط یہ رکھی گئ کہ مجھے خوش کر دو تو تمہیں قرض مل سکتا ہے۔ مجبور عورت کہاں جاتی کیا کرتی بھوک سے نڈھال بچوں کی حالت دیکھ کر ماں کی ممتا بھی برداشت نہ کر سکی۔ اور شرط منظور کر لی۔ ہوس کا نشانہ بننے کے بعد بچوں کو تو بڑے دنوں بعد کھانا ملا مگر ایک ماں کی پاک دامنی پر کیچڑ لگنے کے بعد۔

اب ہوس کا بچاری بلیک میلنگ پر اتر آیا۔ وقت گزرتا گیا وہ قرض دینے والا اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لاتا اور اپنی ہوس کی پیاس بجا کر چلتا بنتا اب اس بیوہ عورت کی پہچان اس کے محلے میں رنڈی کے نام سے ہوئ ہر بچہ بڑا بوڑھا اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ 

کسی نے محلے کے بڑے الحاج وڈیرے صاحب کو بتا دیا کہ فلاں گھر میں زنا کا اڈہ کھول رکھا ہے عورت نے۔

حاجی صاحب آگ بگولہ ہو گے متعلقہ تھانہ میں فون کر کے پولیس کی نفری بلا لی پولیس عورت کے گھر میں گھس گئ گلی اور محلے والے کسی بالی ووڈ کی فلم کے سین کی طرح انجواۓ کرنے لگے۔

پولیس نے عورت کو گرفتار کیا۔ حاجی صاحب سے برداشت نہ ہوا کہ میرے محلے میں اس عورت نے زنا کا اڈہ کھول دیا۔ حاجی صاحب آگے بڑھے اور لاتوں اور مکوں کی بارش کر دی۔ معصوم بچے چیخ چیخ کر فریاد کرتے رہے مگر آج سننے والا کوئ نہ تھا۔

عورت بچوں سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی گی اور حاجی صاحب فاتحانہ انداز سے اپنے گھر جا کر  کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گے۔

پھر پولیس نے جو رویہ رکھا عورت کے ساتھ وہ الگ کہانی مگر کم از کم جیل میں دال روٹی تو ملنے لگ گی تھی شاید یہی قسمت میں لکھا تھا سمجھ کر دن گزارنے شروع کر دیے۔

ایک عورت اور اس کے بچوں کی زندگی برباد کرنے والا وہ شخص نہیں تھا جس نے ہوس کا نشانہ خود بھی بنایا اور دوستوں سے بھی بنوایا۔


اصل مجرم حاجی صاحب تھے جن کا رعب دبہ تھا مگر انہوں نے کبھی یتیم بچوں اور بیوہ کا حال تک نہ پوچھا۔ اصل مجرم اہل محلہ تھا گلی کے لوگ تھے جنہوں نے یتیم بچوں اور بیوہ کا خیال تک نہ رکھا۔


اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں گزشتہ سال سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئ جس میں کپڑے کی دکان سے چوری کرتی دو عورتوں کو پکڑا گیا اور پھر مارکیٹ کے جوانوں اور بزرگوں نے ان عورتوں کی سرے عام وہ پٹائ کی انکے بال نوچے ویڈیوز بنائیں ننگی گالیاں دی گیئں ۔ مانا کہ وہ مجرم ہیں مگر پہلی بات یہ کہ تم انہیں سزا نہیں دے سکتے پولیس کو بلا کر حوالے کرنا تمھارا فرض بنتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چوری کرنے کی بنیادی وجہ کیا ہے اگر غربت ہے تو بھئ اس میں حکمرانوں سمیت صاحب حثیت بھی برابر کے مجرم ہیں۔

جب ذکواة صدقات عطیات کا پیسہ مستحق لوگوں تک نہیں پہنچے گا تو غریب چوری بھی کرے گا جسم فروشی بھی کرے گا اور یاد رکھو اس کے گناہ میں تم بھی شریک ہو چونکہ تم نے اس مسئلے کی بنیاد کو کبھی سمجھنے کی کوشش تک نہیں کی۔


عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ ایک بار حج سے فراغت کے بعد حرم شریف میں ایک ساعت کے لیے سو گئے، آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اور ایک نے دوسرے سے پوچها کہ اس سال کس قدر لوگ حج کو آئے..؟ دوسرے نے جواب دیا، 6 لاکھ، پهر اس نے پوچها.. کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا..؟ جواب دیا.. کسی کا حج قبول نہیں ہوا ہے، عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا، تو میرے دل میں ایک اضطراب پیدا ہو گیا اور میں نے کہا کہ اس قدر لوگ جو دور دراز سے اس قدر رنج اٹها کر صحراؤں اور بیابانوں کو طے کر کے آئے ہیں، ان کی تکالیف و مصائب رائیگاں گئیں..؟ پهر اس فرشتے نے کہا کہ دمشق میں ایک موچی ہے، اس کا نام علی بن الموفق ہے وه حج کو نہیں آیا، لیکن اس کا حج قبول ہے اور حق تعالیٰ نے ان سب لوگوں کو اس کے طفیل بخش دیا ہے۔


عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں جب میں نے یہ سنا تو خواب سے بیدار ہو کر خیال کیا کے مجهے دمشق جا کر اس شخص کی زیارت کرنی ہے، جب میں دمشق پہنچا اور اس کا مکان تلاش کیا اور دروازے پر دستک دی، تو اندر سے ایک شخص نکلا، میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا، اس نے کہا؛ علی بن الموفق، میں نے کہا کہ مجهے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، اس نے کہا.. ہاں کہو، میں نے کہا، آپ کیا کام کرتے ہیں..؟ اس نے جواب دیا کہ میں موچی کا کام کرتا ہوں، پهر میں نے خواب کا تمام واقعہ اس سے بیان کیا، اس نے پوچها تمہارا نام کیا ہے..؟ میں نے کہا عبداللہ بن مبارک... پهراس نے کہا مجهے تیس سال سے حج کی آرزو تهی، میں نے اس مدت میں تین ہزار درہم جمع کیے اور اس سال حج کا اراده کیا، میری بیوی حاملہ تهیں وه ایک دن مجھ سے کہنے لگی پڑوس کے گهر سے آج طعام کی خوشبو آرہی ہے، آپ جائیں میرے لیئے کچھ طعام ان سے مانگ کر لائیں۔


میں گیا تو پڑوسی نے مجھ سے یہ ذکر کیا کہ تین دن تین راتوں سے میرے بچوں نے کچھ نہ کهایا تها، آج اتفاقاً میں نے ایک مردار گدها دیکها، تو اس سے ایک ٹکڑا گوشت کا کاٹ کر لے آیا اور اس کا کهانا بنایا، اس لیے یہ کهانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے، جب میں نے یہ سنا تو... میری جان کو ایک آگ سی لگ گئی، میں نے وه تین ہزار درہم گهر سے لیے اور اس کو دے دیئے کہ اس سے اپنے بال بچوں کا گزاره کرو کہ بس اب یہی میرا حج ہے... اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ میرے خلوص نیت کو دیکھ کر بغیر ادائیگی افعال حج اس نے میرے اس فعل کو قبولیت حج کا درجہ عطا فرما دیا.....))

(اعمال الصالحين صفحہ 266 )


نماز روزہ ذکر و اذکار ہی اعمال نہیں پڑوس یتیم مسکین لوگوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔

جب ہر نمازی ہر حاجی ہر روزے دار نے غریبوں یتیموں کا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ خود ہی ڈکیتی بھی ختم ہو گی زنا کے اڈے بھی ختم ہونگے۔ بصورت دیگر ان جرائم اور گناہوں سے خود کو مستثنی سمجھنا سنگین غفلت اور تباہی کا سبب بنے گا۔


سوال تھا عورت جسم فروشی پر کیوں مجبور ہوتی ہے؟

بس یہی وجہ ہے جب انسان مجبور ہوتا ہے تو اسے انتہائ قدم مجبوراً اٹھانا پڑتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان عورتوں میں سیکس کی خواہش زیادہ ہو یا وہ اس گھٹیا فعل میں زندگی کو پرمسرت محسوس کریں ایسا بالکل بھی نہیں۔

مجبوری ہی وہ وجہ ہے جو عورت کو اس مقام تک لے کے آتی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر خبیث نسل لوگ زنا کے اڈوں پر انہیں بٹھاتے ہیں۔

لوگوں سے نفرت کے بجاۓ جس گناہ کی وجہ سے تم ان سے نفرت کرتے ہو اس گناہ کی بنیادی وجہ تلاش کرو اور اس کا خاتمہ کرو اسی میں سب کی بہتری اور اللہ کی رضا شامل ہو گی۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

یہاں کلک کر کے ہمارے فیس پر اکاؤنٹ کو فالو کریں۔


1 تبصرہ:

Bottom Ad [Post Page]