محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

"ابوالہول" کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ فرعون خوفو کا دور تقریباً 2600 ق م تھا۔اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م فرعون "مینیس" کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجودہ عراق کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم "سمیرین"اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابوالہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے۔آثارقدیمہ کی تاریخ کے لحاظ سے مصر کی سب سے اہم دریافت "ابوالہول" کا یہ عظیم مجسمہ ہے ۔ سات منزلوں پر مشتمل یہ طویل القامت مجسہ اس عہد کی روایات کی عکاسی کرتا ہے۔یہ ایک ایسی خیالی مخلوق کا مجسمہ ہے جس کا سر انسانی اور دھڑ شیر کا ہے۔

اور اس کی عمر کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔کہ یہ کب، کس نے اور کیوں بنایا؟

پھر بھی !!

حضرتِ انسان اس مُجسمے کی عُمر سے ھارنے کی بجائے مفروضے پیش کرتے ھیں ۔جن کے مُطابق یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ یعنی تقریبًا پانچ ھزار سال پہلے ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔

ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔

ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ جیزہ (قاہرہ) کے عظیم الجثہ بت کا عربی نام، جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ ابوالہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ’’بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ ’’ابوالہول‘‘ کا اطلاق اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔

اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون کی شبیہ ھے۔ یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 60 میل دور جیزہ (غزہ) کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کیے گئےھیں۔ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہہ صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہہ کو قدیم مصری اپنا دیوتا تسلیم کرتے تھے۔

اس مجسمہ کی ناک اور داڑھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ 820ء میں "خلیفہ ہارون الرشید" کے بیٹے "عبداللہ مامون" نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور داڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور داڑھی برطانیہ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]