محمد بلال خان شہیدؒ کون تھے؟
یکم جنوری1997کو پیدا ہونے والے (محمد بلال خان) کی انتہائ مختصر زندگی کا سفر 16جون 2019کی شام کو اسلام آباد میں ان کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ہی ختم ہوا۔17جون کی صبح اسلام آباد میں اور سہ پہر ایبٹ آباد میں نماز جنازہ ادا کر کے تدفین کر دی گی۔ محمد بلال خان کے بارے میں کثیر تعداد میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ بلال خان کا رویہ متشدد رہا ہے۔ مگر دوسری جانب ایک بڑی تعداد کا یہ بھی ماننا ہے کہ بلال خان حق پرست اور امن پسند نوجوان تھا۔
بلال خان نے اپنی حق گوئ سچائ دلیری اور بہترین صلاحیتوں کو بروۓکار لاتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ بلال خان اسلام پسند اور نظریاتی سوچ رکھنے والے نوجوان تھے، جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے دفاع ناموس رسالتﷺ اور دفاع ناموس صحابہؓ کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی جان تک گنوا دی۔
بلال خان بہترین بلاگر اور جرنلسٹ تھے جن کی تحریریں اور گفتگو بہترین دلائل پر مبنی ہیں۔ بلال خان نے اپنی بہادری اور صداقت کے ذریعے نوجوانوں میں شعور بیدار کیا، اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم اور پروپیگنڈوں کو بڑی باریکی سے بےنقاب کرنے والوں میں بھی محمد بلال خان سرفہرست دکھائ دیئے۔
جو لوگ سمجھتے ہیں بلال خان متشدد رویہ رکھنے والا نوجوان تھا۔ اور یہی رویہ انکی موت کا سبب بنا، انکے خیالات بھی بجا ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بلال خان مجموعی معاشرے میں چلنے والے رواج سے بالکل الگ تھے۔ وہ جو حق اور سچ سمجھتے تھے بلا خوف و خطر اس پر لکھتے اور بولتے تھے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ شخصیات پرستی، جماعت پرستی، اپنے مفاد اور انا کی خاطر سچ کو چھپانا اور ٹال مٹول سے کام لینا وغیرہ وغیرہ۔ مگر بلال خان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ نوجوان ایک الگ سوچ رکھنے والا شخص تھا جس کا کسی جماعت یا فرقے سے تعلق نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں سب سے مقدم دین اسلام تھا۔
بلال خان ناموس رسالتﷺ کے مسئلے پر کھلم کھلا بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی تحریک لبیک کے شانہ بشانہ بھی نظر آئے اور ناموس صحابہؓ کے دفاع کے لیے اہلسنت والجماعت کے ساتھ چلتے بھی دیکھے گے۔
اسلام سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اسلام سے متعلق غیرسنجیدہ گفتگو پر کئ علماء پر بھی تنقید کی اور اسلام کے حق میں بولنے والے بےدین حکمرانوں کو بھی داد دیتے نظر آئے۔ بلال خان کے اندر کی ایمانی غیرت کو آپ متشدد رویہ کہہ لیں وہ آپ کی مرضی، مگر تاریخ بلال خان کی غیرت ایمانی کی چشم دید گواہ بن چکی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثریت چڑھتے سورج کے پوجاریوں کی ہے، جن کی ہر بات اپنے ذاتی مفاد تک محدود ہوتی ہے۔ جہاں منافقت اپنے عروج پر ہو، جہاں جھوٹ کو فیشن بنا رکھا ہو، جہاں مذہب مسلک لسانیت کا استعمال دنیاوی مفاد کے لیے کیا جاتا ہو وہاں حق اور سچ بولنے والے شخص کو متشدد ہی کہا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر گزارے گے وقت میں بیشمار لکھاریوں کو پڑھنے کا موقع ملا ہے، اکثریت اپنے آقاؤں کی خوشنودی پر لگی نظر آئ یا کہیں نہ کہیں مفاد یا انا کے ہاتھوں مجبور نظر آئ، مگر بلال خان کو مکمل آزاد غیرجانبدار اور انتہائ دیانتدار پایا۔ بلال خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام دشمن قوتوں کا جس انداز سے مقابلہ کیا اس کی مثال وہ خود تھے۔ جس سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹس سے اسلام شعائر اسلام اور مقدس شخصیات کی گستاخیاں کی جاتی تھیں، اسی سوشل میڈیا پر بلال خان نے اپنا نام اپنی شناخت چھپائے بغیر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر باطل قوتوں کو آخری دم تک للکارا اور ناموس رسالتﷺ اور ناموس صحابہؓ کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر لی۔
اگر کہا جائے کہ بلال خان سوشل میڈیا کا مجاہد تھا جس نے سوشل میڈیا پر اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جان دے دی تو بالکل غلط نہ ہو گا۔
بلال خان دنیا سے اوجھل ہو گیا مگر بلال خان کی سوچ بلال خان کی فکر بلال خان کا مشن ہمیشہ کے لیے سربلند ہو گیا۔
دعا ہے اللہ تعالی بلال خان شہید کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، والدین بہن بہائیوں رشتےداروں اور چاہنے والوں کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
اور ان کے قاتلوں کو تباہ و برباد کرے۔ (آمین)
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں