محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


آجکل مذہبی شخصیات کی نماز جنازہ کی تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے ساتھ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول لکھا جاتا ہے "ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ ہم میں سے کون حق پہ ہے" مولانا رضوی صاحب مرحوم کی نماز جنازہ کی تصویروں کو بھی اسی ٹائیٹل کے ساتھ خوب شیئر کیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رضوی صاحب کی نماز جنازہ میں شرکاء کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک جنازہ رضوی صاحب کا تھا جس میں عوام الناس نے بھرپور شرکت کی۔

ان کی نماز جنازہ میں بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث سب مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی جس کی بنیادی وجہ ناموسِ رسالتﷺ کے دفاع کے لیے ان کی کاوشیں اور ان کی توانا آواز تھی۔ 
رضوی صاحب مرحوم کے طرز احتجاج سمیت مختلف امور پر اختلاف رہا ہے مگر اس بات کا برملا اظہار کر رہا ہوں، پاکستان کے اندر بالخصوص میڈیا، بیوروکریسی، سمیت مختلف اداروں میں بیٹھے اینٹی اسلام لبرل طبقے کے راستے میں رضوی صاحب چٹان بن کر کھڑے تھے۔ جس طرح وہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ تو ویسے بھی بڑے خاموش مزاج ہوتے ہیں، اور دیوبندیوں میں سے بولنے والوں کو (ط ا ل بان) کی فہرست میں شمار کروا کر اور فضل الرحمن جیسے لوگوں کو لالچ دے کر اپنے مقاصد حل کر لیے جائیں گے، ان کا یہ خواب رضوی صاحب نے چکناچور کر دیا۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں بریلوی مکتبہ فکر میں اس قدر جاریحانہ رویہ رکھنے والے نہیں ملیں گے، یہ اعزاز صرف رضوی صاحب نے ہی حاصل کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلکی اختلافات کے باوجود بھی دیوبندی و اہلحدیث مکتب فکر کے لوگ بھی رضوی صاحب مرحوم کے دیوانے ہیں۔ بظاہر جس طرح ناموسِ رسالت کے دفاع کے لیے رضوی صاحب نے حکومتوں کے سامنے بھرپور احتجاج کیا، اور چھپے ہوئے اسلام مخالف قادیانیت نواز لوگوں کو للکارا،، ان کی اس کاوش کو ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں کم از کم وہ ضرور سمجھ چکے ہیں جن کو للکارا گیا۔

رضوی صاحب کی ان کاوشوں کے بعد عوام الناس کا ان کے جنازے میں بھرپور شرکت کرنا یقینی تھا، چونکہ جو شخص ختم نبوت کے مسئلے پر اہل ایمان کے دلوں کی ترجمانی کرے وہ ہیرو ہی کہلاتا ہے۔

اب آتے ہیں اپنے ٹاپک کی جانب کہ امام احمد بن حنبلؒ کے قول کا اطلاق رضوی صاحب پر ہوتا ہے کہ نہیں؟
امام احمد بن حنبلؒ کی لڑائی عباسی حکومت کے سرکاری علماء اور قاضی وقت سے تھی جو علمی دلائل پر مبنی تھی۔ اسی سے متعلق انہوں نے اپنے بارے میں یہ جملہ کہا تھا جو وقت آنے پر صادر بھی آیا، امام احمدبن حنبلؒ کا جنازہ جب جیل سے نکلا تو تاریخی اعتبار سے اپنے وقت کا سب سے بڑا جنازہ تھا، اور انکے مدمقابل (احمدبن ابوداؤد) جو قاضی تھا کے جنازے میں صرف سرکاری اہلکار شامل تھے۔

امام احمدبن حنبلؒ کا یہ قول نہ تو قرآن کی آیت ہے اور نہ ہی حدیث ہے کہ ہر اک پر اس کا اطلاق ہو، یہ ان کی اپنے بارے میں اس وقت ایک رائے اور دعوہ تھا جو بالکل سچ ثابت ہوا۔ اب اسی قول کی روشنی میں قیامت تک اٹھنے والے جنازوں کو ہم پرکھنا شروع کر دیں تو یہ سراسر ناانصافی ہو گی۔

مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں آجکل (پی ڈی ایم) کے جلسوں میں کئی جماعتوں کے کارکنان شرکت کرتے ہیں باوجود اس کے بھی وہ تعداد میں عمران خان کے سابقہ جلسوں کے شرکاء جتنے لوگ جمع کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اب فرض کر لیں خدانخواستہ نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری،فضل الرحمن انتقال کر جائیں۔ اللہ ان سب کو لمبی زندگی دے صرف مثال دے رہا ہوں، اور عمران خان کے چاہنے والے یقنی طور پر دوسروں سے زیادہ ہونگے، تو کیا نواز شریف،فضل الرحمن،  زرداری کے لوگ امام احمدبن حنبلؒ کے قول کی روشی میں یہ تسلیم کریں گے کہ عمران خان حق پر ہیں اور فضل الرحمن نواز، زرداری حق پر نہیں؟
اگر یہاں پر آپ کو یہ اعتراض ہو کہ امام احمد بن حنبلؒ کا قول علماء کے لیے تھا، اور علمی اختلاف پر تھا، سیاسی اختلاف اور سیاسی لیڈروں کے لیے نہیں تو پھر میرا آپ سے سوال ہے۔
کل کو کسی دیوبندی یا اہلحدیث مولوی کے جنازے کے شرکاء کی تعداد رضوی صاحب کی نماز جنازہ کے شرکاء سے دس گنا زیادہ ہو تو بریلوی حضرات امام صاحب کے قول کی روشنی میں یہ مانیں گے کہ یہ لوگ حق پر ہیں یا تھے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہی کہا جائے گا یہ تو وہابی ہیں گستاخ ہیں۔
اور اگر کسی بریلوی مکتبہ فکر کے عالم کی نماز جنازہ کے شرکاء کروڑوں میں ہوں تو بھی اہلحدیث اور دیوبندیوں نے کبھی بھی نہیں ماننا کہ امام صاحب کا قول یہاں  پر صادر ہوتا ہے۔ تمام مکاتب فکر امام صاحب کے قول کو فقط اپنے مسلک کے لوگوں پر ہی صادر کرنے کی کوشش کریں گے۔

اگر حق یا ناحق کے فیصلے جنازے کے شرکاء سے ہی منسوب کر لیے جائیں تو اہل باطل سے ٹکرا کر رتبہ شہادت پانے والے کئی مجاہد و فوجیوں کے جنازوں میں چند لوگ یا چند درجن لوگ جبکہ مخالف کی آخری رسومات میں ہزاروں کا مجمع بھی دیکھنے کو ملے گا تو کیا آپ ایک مجاہد اسلام کے حق پرست ہونے کا انکار کر دیں گے؟

امام احمد بن حنبلؒ کا قول ان کی اپنے متعلق ایک رائے تھی جو درست ثابت ہوئی اور تاریخ بن کر محفوظ ہوئی، سب کے لیے نہ تھی اور نہ ہی سب کے لیے ماننا عقل مندی ہے۔

ازقلم: محمد اشرف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]