محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

آج دس محرم الحرام کا دن ہے اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں نواسہ رسولﷺ حضرت حسین ابن علیؓ کی یوم شہادت منائی جا رہی ہے۔ محرم شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر فضائل حسینؓ کے ساتھ ساتھ یزید ابن معاویہ پر لعن طعن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ شیعہ سنی آمنے سامنے آ جاتے ہیں اور بعض سنی شیعہ کے ساتھ مل کر اس موقع پر شیعہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ان کی تمام کہانیوں کو درست منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

واقعہ کربلا کیوں پیش آیا اس کی حقیقت کیا ہے، ابن ضیاد کو یزید نے کیوں گورنر بنایا؟ اور حسین ابن علیؓ کے ساتھ کربلا میں کیا کچھ ہوا۔ ان باتوں کا مختصر خلاصہ پوری غیرجانبداری سے پیش کرنے لگا ہوں۔ 

حضورپاکﷺ کے وصال کے بعد خلافت صدیق اکبرؓ کے دور میں بیشمار فتنوں نے جنم لیا جن میں فتنہ مسلمہ کذاب اور منکرین ذکواۃ سرفہرست ہیں، ان فسادات کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کی بڑی تعداد رتبہ شہادت پر فائز ہوئی، بیشمار قربانیوں کے بعد ان فسادات کا خاتمہ کیا گیا۔
ابوبکرصدیقؓ کے بعد عمرفاروقؓ کا دور خلافت آیا جس میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور آدھی دنیا پر توحید و رسالت کے پرچم بلند ہوئے۔ یہود و نصاری کی سازشیں پوری طرح سے کوشاں رہیں مگر موقع ہاتھ نہ آیا، یہودیت کی تیار کردہ جماعت سبائیت کے ذریعے سیدنا فاروق اعظمؓ کو شہید کیا گیا، مسلمانوں نے تیسرا خلیفہ حضرت عثمان بن عفانؓ کو چنا جنکا تعلق قبیلہ بنو امیہ سے تھا،اس دوران سبائیت نے نئے حربے استعمال کرنا شروع کیئے۔
قبیلہ بنوہاشم اور بنو امیہ کے پرانے مقابلے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت عثمانؓ کے خلاف مہم چلائی گئ اسی فساد کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا۔ اب اگلے خلیفہ حضرت علیؓ تھے تو مسلمانوں میں شہادت عثمان کا غم اور فساد سے متعلق بہت کچھ پایا گیا۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہ چاہتا تھا کہ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے قتل کا بدلہ لیں۔ جن میں امیرمعاویہؓ اور حضرت عائشہؓ کا موقف بھی یہی تھا۔حضرت علیؓ کے دور خلافت میں فتنہ حد سے بڑھتا گیا مسلمانوں کے درمیان آپس میں جنگیں ہوئیں جن میں جنگ صفین اور جنگ جمل بھی شامل ہیں جنگ جمل میں ہی حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ کی شہادت ہوئی۔ 
حضرت امیرمعاویہ اس وقت شام کے گورنر تھے۔ موجودہ شام لبنان فلسطین اور اردن کے پورے پورے ممالک صوبہ شام کے حصے تھے، حضرت علیؓ نے اپنا دارلحکومت کوفہ میں بنا لیا تھا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ اور امیرمعاویہؓ کے درمیان خط و کتابت کا دور بھی شروع ہوا مگر کوفہ کے غدار منافقین کی کوشش یہی رہتی کہ حضرت علیؓ اور معاویہؓ ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکیں۔
 بالآخر کوفہ کے بیوفا جعلی محبت کے علمبرداروں نے حضرت علیؓ کو شہید کر دیا۔ یہ درو پھر سے نئے فتنے کی طرف جا رہا تھا کہ نظام حکومت حضرت امیرمعاویہؓ نے سنبھال لیا۔ یہاں پر بہت سے اہم واقعات ہیں لیکن میں شارٹ کٹ خلاصہ لکھ کربلا کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں کہ تحریر زیادہ لمبی نہ ہو۔

حضرت امیرمعاویہؓ کے دور حکومت کی کل مدت 20سال ہے، ان بیس سالوں میں بیشمار فتوحات بھی ہوئیں اور فسادات نے بھی جنم نہیں لیا۔

اب یہاں سے آگے اس پوائنٹ کا ذکر کرنے لگا ہوں جسے اہل تشیع من گھڑت سٹوریاں بنا کر اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت امیرمعاویہؓ کے دور حکومت کے 10سال گزرنے کے بعد ایک جید صحابی مغیرہ ابن شعبہؓ امیرمعاویہؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ ابھی سے اپنا جانشین مقرر کر لیں تاکہ بعد میں کوئی ایسی صورتحال نہ بنے جس طرح حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد فسادات نے جنم لے لیا تھا۔
یاد رہے کہ مغیرہ ابن شعبہ کا شمار اصحاب شجرہ میں سے ہے جن صحابہؓ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور رسول اللہﷺ نے انہیں جنت کی بشارت سنائی تھی۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کو حضرت علیؓ کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا۔ 
حضرت امیرمعاویہؓ نے ان کی بات سنی اور کچھ دلائل دیے اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو ہی ذمہ داری سونپی کہ یہ فیصلہ آپ ہی کر لیں۔حضرت مغیرہؓ نے یزید کو ولی عہد بنانے کا مشورہ دیا جسے امیرمعاویہؓ نے قبول کر لیا۔  

یزید کی ولی عہدی کی بیعت دور دور تک ہو چکی تھی، 20سالہ دور اقتدار کے بعد حضرت معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید خلیفہ بنے اور خلافت کی بیعت ہونے لگی۔ یزید کی بیعت تمام لوگوں نے کی سوائے پانچ لوگوں کے، جن میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بیٹے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ حضرت عباسؓ کے بیٹے عبداللہ بن عباسؓ  حضرت زبیرؓ کے بیٹے عبداللہ ابن زبیر اور حضرت حسین ابن علیؓ۔
بیعت نہ کرنے کی وجہ ملوکیت تھی، کہ یہ طریقہ دین اسلام کا نہیں کہ باپ کے بعد بیٹے کو حکمرانی سونپ دی جائے۔ بعد میں عبدالرحمن بن ابوبکرؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ ابن عباسؓ نے یہ کہہ کر بیعت قبول کر لی کہ بجائے مسلمانوں میں ایک بار پھر جنگ اور فساد کے یزید کی خلافت کو مان لیا جائے۔
مگر عبداللہ ابن زبیر اور حضرت حسین ابن علیؓ اپنی بات پر ڈٹ گے کہ ملوکیت کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یزید نے بھی ان شخصیات پر کوئی زبردستی نہیں کی۔ عبداللہ ابن زبیر اور حضرت حسینؓ ملوکیت کے بجائے خلافت کے قیام کے خواہشمند تھے اور کوشاں بھی۔ بعد میں ان دونوں کے درمیان بھی اختلاف ہوا چونکہ عبداللہ ابن زبیر شہر مکہ کو دارلحکومت بنانا چاہتے تھے اور حضرت حسینؓ کوفہ کو جو حضرت علیؓ کے دور خلافت کا مرکز تھا۔

اب کوفہ سے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھے جانے لگے کہ ہم یزید کی خلافت کو نہیں مانتے لہذا آپ تشریف لے آئیں، ان خطوط کی تعداد بارہ سے اٹھارہ ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ حضرت حسینؓ نے مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کر دیا مسلم بن عقیل جب کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ کی بیعت کرنا شروع کر دی، ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ دیکھ کر مسلم بن عقیل نے کوفہ سے حضرت حسینؓ کو خط لکھا کہ ماحول سازگار ہے آپ تشریف لے آئیں۔
جب یزید کو پتہ چلا کہ اہل کوفہ بغاوت کرنے جا رہے ہیں تو انہوں نے عبیداللہ ابن زیاد کو گورنر مقرر کر دیا جو انتہائی سخت مزاج سمجھے جاتے تھے تاکہ لوگوں کو حکومتی قوانین کے تابع رکھا جائے۔
ابن زیاد نے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا تو مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے ہزاروں محبت علیؓ و محبت حسینؓ کا دعوہ کرنے والے کوفی مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گے، اب چونکہ مسلم بن عقیل حضرت حسینؓ کو خط لکھ چکے تھے تو کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔اور ادھر خط پہنچتے ہی حضرت حسینؓ کا قافلہ کوفہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ 
اس وقت عبداللہ ابن زبیر اور دیگر صحابہؓ نے حضرت حسینؓ کو منع کیا کہ کوفہ نہ جائیں کوفی وفا نہیں کرتے انہوں نے جو حضرت علیؓ کے ساتھ کیا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔مگر حضرت حسینؓ کے دل میں اللہ تعالی نے یہ ارادہ پکا کر دیا تھا تو وہ اپنے فیصلے پر برقرار رہے۔

یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت کر دوں اکثر رافضیت کے قصوں میں سنایا جاتا ہے کہ دین خطرے میں تھا شراب و شباب کا دور دورہ تھا امام حسین علیہ السلام نانا کا دین بچانے جہاد کی غرض سے نکلے۔ یہ صرف من گھڑت باتیں ہیں مدینہ منورہ میں اس وقت تقریباً 200سے زاہد ایسے جید صحابہؓ موجود تھے جن کی تربیت محمدﷺ نے کی بیشک وہ بوڑھے تھے مگر محمدﷺ کا دین خطرے میں ہو اور انکے تربیت یافتہ صحابی گھروں میں بیٹھے ہوں ایسا ہو نہیں سکتا، پھر اگر یہ قافلہ جہاد کی غرض سے جاتا تو یہ سفر حج کے بعد شروع ہوتا تاکہ زیادہ تعداد میں مسلمان جہاد میں شرکت کر سکیں۔

بحرحال حضرت حسینؓ کا قافلہ روانہ ہو گیا راستے میں انہیں مسلم بن عقیل کی شہادت کا پتہ چلا اور ان کا پیغام پہنچا کہ آپ جہاں بھی ہوں واپس چلے جائیں۔لیکن اب مسلم بن عقیل کے بیٹوں کا اسرار تھا کہ وہ ضرور جائیں گے اور اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینگے۔ چنانچہ یہ قافلہ کربلا کے مقام پر پہنچا خیمے لگائے گے اور وہاں پر حضرت حسینؓ نے اہل کوفہ کو مخاطب کیا ان کو نام لے لے کر بلایا کہ فلاں فلاں شخص کے یہ خطوط ہیں۔ تمام خطوط حضرت حسینؓ کے پاس محفوظ تھے اب اہل کوفہ پر قیامت برپا ہو چکی تھی۔ ایک طرف ابن زیاد کا خوف اور دوسری طرف اپنے ہاتھوں سے لکھے گے خطوط۔
اب اہل کوفہ یہ سمجھ چکے تھے کہ جب گورنر کو یہ پتہ چلے گا کہ ہم نے خط لکھ کر بلایا ہے تو ہمارے بچنے کے کوئی چانسز نہیں لہذا انہوں نے حضرت حسینؓ کے قافلے پر حملہ کر دیا حضرت زین العابدین کے علاوہ تمام مردوں اور بچوں کو شہید کر دیا گیا اور بعد میں تمام خیمے بھی جلا دیے گے تاکہ جو جو خطوط ان کے پاس تھے وہ تمام ریکارڈ یزید تک نہ پہنچ سکیں۔

آج ہمارے بہت سارے سنی حضرات بھی سنی سنائی من گھڑت باتوں کو لے کر یزید پر لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔ دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھیں جن کا کلمہ نماز اذان تم سے الگ جن کا عقیدہ تم سے الگ جو جبرائیل امین پر بھولنے کا الزام لگا دیں۔ جو قرآن کو اصل قرآن نہ مانیں جو نبیﷺ کے بعد بارہ کو معصوم مانیں جن کی نمازوں میں خلفاءراشدین اور ازواج مطہرات کو گالی دینا ثواب ہو، ان کی من گھڑت کہانیاں اگر آپ کو سچ لگیں تو بھائی صاحب مشورہ یہی ہے ڈوب مرو۔

یزید بھی اللہ کے پاس حسینؓ بھی اللہ کے پاس اللہ بہتر انصاف کرنے والا ہے

البتہ حسینؓ کے قاتلوں پر ہماری طرف سے بھی بیشمار لعنت ہو اللہ تعالی انہیں دنیا و آخرت میں رسوا کرتا رہے۔( آمین) 

ازقلم: محمداشرف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]