محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



گزشتہ چند روز سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور (سی ڈی اے) کی طرف سے غیرقانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن کی زد میں آنے والی ایک مسجد کے معاملے کو جوڑ کر تحریک انصاف اور عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح سیاسی مخالفین مذہب کارڈ پھینک کر عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماضی میں حکمرانوں نے اپنے آقا امریکہ و بھارت کی خوشنودی کے لیے خود کو لبرل ظاہر کرتے ہوئے ہر وہ کام کیا جو ان کی دسترس میں تھا۔ اسلام آباد مندر کے لیے پلاٹ الاٹ کرنے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ بھارت میں واجپائی کی خوشنودی کے لیے بھگوان اور اللہ ایک ہے کا نعرہ لگانے والے سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف تھے۔ خواجہ محمدآصف کا امریکہ میں وہ بیان کہ ہم تو لبرل ہیں پی ٹی آئی مذہبی جماعت ہے اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اقتدار کے لیے یہ لوگ نظریہ تو کیا اپنی ممتا کی قیمت بھی طے کر لیں۔

پھر ایسے بیہودہ لوگوں کے سپورٹروں کا مندر کے خلاف احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، آج اگر مندر کی تعمیر روک دی جائے تو کل کو یہی لیگی اور نام نہاد مسلم کہتے پھریں گے نواز شریف نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا تھا پی ٹی آئی کے آنے کے بعد اقلیتوں کے حقوق غصب کر لیے گے۔ 
مندر سے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب نے ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ مندر کی تعمیر پر خرچ ہونے والا پیسہ قومی خزانے کے بجائے ہندو خود اپنے پاس سے لگائیں، یعنی خود کے پیسے سے مندر تعمیر کریں۔ مفتی صاحب کے ٹویٹ میں کہیں پر مندر بنانے کی مخالفت نہیں صرف بجٹ کے قومی خزانے سے خرچ پر اعتراض ہے۔

جب نواز شریف نے زمین الاٹ کی تھی تو اس وقت اعتراض والے کہاں تھے؟
آج بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مندر کی تعمیر درست نہیں تو اس تعمیر کے خلاف سپریم کورٹ جائیں سڑکوں پر نکل کر بھرپور انداز میں احتجاج کریں۔  مندر کی تعمیر کو اسلام دشمنی سے جوڑنے والے درحقیقت اسلام پسند نہیں اقتدار پسند ہیں جو ہر صورت مذہب کا استعمال کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔

مندر کی تعمیر سے مجھے نہ تو کوئی خوشی ہے اور نہ ہی کوئی غم مندر کی تعمیر کے پیچھے کرتاپور کوریڈور جیسی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ایسے معاملات کو ریاستی ادارے بہتر طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں اور سب کچھ بہتر سمجھتے جانتے ہیں اور ان سے مفادات لینا بھی انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ مندر بننے سے اسلام آباد میں شرک ہو گا بتوں کی پوجا ہو گی تو صدقے جاواں پاکستان کے ہر شہر میں شرک کی باقاعدہ فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں جہاں پر پیروں فقیروں مولویوں نام نہاد درویشوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ مندر میں ناریل توڑا جائے گا، موم بتیاں جلائی جائیں گی، پتھر کی بنی مورتیوں سے منتیں مرادیں مانگی جائیں گی، مگر مسلمانوں کی شرک کی فیکٹریوں میں یہ سب تو یقینی ہے یہاں آنے والے ذائرین کی عورتوں کی عصمتیں تک لٹی جائیں گی۔ کیا یہ سب ہمارے ہاں درباروں مزاروں پر عرس اور محفل کے نام پر نہیں ہوتا؟

ہمارے سیاستدانوں نے بھی قوم کی ایسی دکھتی رگ پکڑ رکھی ہے جسے دبا کر اپنا کام برابر کر دیتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی جو موجودہ حکومت کے اتحادی بھی ہیں اور نیب کیسز پر حکومت سے ناخوش بھی ان کے ایک بیان کو مذہبی طبقہ بڑی دلیری سے شیئر کر رہا ہے جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو، ایک وقت تھا جب یہی مذہبی طبقہ چوہدری برادران کو لال مسجد کا قاتل اور مشرف کا ساتھی سمجھ رہا تھا اور انہیں قاتل لیگ کے نام سے پکارا کرتے تھے، آج انکا ایک بیان بہت عظیم بن چکا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ کیا جس میں حافظ سعید کی جماعت سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی اور جمیعت علماءاسلام (س) کے کارکنان و قائدین سمیت سیاسی شخصیات بھی تھیں۔ جب اعجازالحق تقریر کرنے کے لیے مائیک پر گے تو سپاہ والوں نے شورشرابہ شروع کر دیا کہ یہ لال مسجد کا قاتل اور مشرف کا اتحادی ہے  ہم اسے نہیں سنیں گے مولانا لدھیانوی صاحب کی اپیل پر لوگ خاموش ہوئے اور اعجازالحق نے تقریر کی۔
کل تک چوہدری برادران اور (ق)لیگ کو قاتل لیگ کہنے  والے آج ان کو ماموں کے درجہ دے رہے ہیں۔ اتنی کمزور ذہانت حد ہے یار ویسے۔
اس عوام کی یاداشت اتنی سی ہے کہ کوئی کچھ بھی کہہ کر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر لیتا ہے۔

دوسری بات کہ مسجد والے معاملے کو بھی عمران خان سے جوڑتے ہوئے مختلف قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں اور طعنے دیے جا رہے ہیں کہ یہ ہے ریاست مدینہ؟ 
ارے بھائ جب سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے مسجدیں بنائیں گے تو متعلقہ سرکاری ادارے حرکت میں تو آئیں گے ہی یہ وہ نواز زرداری والا پاکستان نہیں کہ تم بھی کھاؤ ہم بھی کھاتے ہیں اب جو بدعنوانی کرے گا اسے سزا ملے گی یہ نیا پاکستان ہے اور نئے پاکستان کی ابھی صرف چند جھلکیاں ہی آپ نے دیکھی ہیں ابھی انشاءاللہ بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔

قوم کا ویک پوائنٹ ہے مذہب اور اسی کا استعمال سیاستدان اور مولوی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسلام سے محبت کی وجہ سے علماء اکرام پر اندھا اعتماد کیا جاتا ہے جسکا وہ پوری طرح سے فائدہ اٹھا کر کرپشن بدعنوانی اور بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد مافیا ہے جو دین کے نام پر بےشعور کم عقل مسلمانوں کو ورغلا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں کے کئی مدارس کا دورہ کریں اور جانچ پڑتال کریں یہ مدرسہ والی زمین کیسے خریدی گئی تو اکثر مدارس کی زمینوں کا ریکارڈ آپ کو نہیں ملے گا، یہی وہ شاطرانہ طریقہ ہے مسجد بناؤ پھر دھیرے سے مدرسہ کی بنیاد رکھو اور مدرسہ کے60%حصہ کو مہتمم صاحب کے حجرہ مبارک کا نام دے دو، اب اگر وہ ادارہ حرکت میں آجائے جس کی زمین پر قبضہ کر کے مہتمم صاحب نے عالیشان مکان عرف حجرہ تعمیر کیا ہے تو شور و غل ہو گا اسلام دشمن حکومت اور ادارے مدارس کو برداشت نہیں کرتے۔
دین اسلام سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے عوام سر پر کفن باندھ کر نکل آئیں گے اور یوں مہتمم صاحب متعلقہ ادارے کو خوب بلیک میل کریں گے۔متعلقہ ادارہ دم دبا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانیں گے۔
آپ سروے کریں پورے ملک کے اکثر مدارس درس و تدریس سے زیادہ روزگار کا ذریعہ ہی ملیں گے۔ مسجد کا امام اور مدرس 10سے15ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بال سفید کر لیں گے، ایک سائیکل تک نہیں خرید سکیں گے مگر مہتمم صاحب جو چند سال پہلے عید پہ نئے کپڑے بنانے کو ترستا تھا آج سترلاکھ کی گاڑی میں مزے سے گھومتا نظر آ رہا ہے۔
آپ خود تحقیق کریں تمام مہتمم حضرات کے ذرائع آمدن چیک کریں آپ کو ہر طرف سے ایک ہی جواب ملے گا کہ مدرسے سے پہلے ان کے حالات بڑے خراب تھے۔
لیکن کچھ لوگ کہیں گے وہ لوگ اللہ کا قرآن پڑھاتے ہیں اللہ انہیں غیب کے خزانوں سے عطا کرتا ہے تو میرے بھائی مہتمم صاحبان سے زیادہ مسجد کے امام و مدرسین محنت کرتے ہیں انہیں تو اللہ اپنے ظاہری خزانوں سے ہی 10سے15ہزار عطا فرماتے ہیں۔

تو جناب صدقات عطیات کی مد میں جمع ہونے والے ماہانہ کروڑوں روپے کی ہیرا پھیری تو مہتم حضرات کے ہاں ہوتی ہے جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے مدرسے کے اساتذہ کو بھی ٹھیک تنخواہ نہیں دیتے۔
اور ہمیشہ سے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام کے ذریعے بلیک میل کرتے ہیں۔ آج مسجد توحید اور مندر کی تعمیر کے ایشو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پیچھے بھی اسلام محبت نہیں بلکہ پیٹ خوری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]