محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

کرونا وائرس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان نے بھی لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ کے آپشن کو چنا جس پر ایک مزدور سے لے کر تاجران سمیت ہر شعبے سے وابسطہ افراد نے حکومتی احکامات کے آگے سرخم کرتے ہوئے اپنے مشکل ترین حالات میں زبردست انداز سے حکومتی احکامات کا خیر مقدم کیا۔
مذہبی طبقات، مدارس و مساجد سے وابسطہ لوگوں نے بھی حکومت کی تمام تر شرائطیں مانتے ہوئے بہتر انداز میں معاملات کو چلایا۔ گزشتہ روز 21ویں رمضان المبارک کو خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیؓ کے یوم شہادت کے موقع پر اہل تشیع مذہب کے لوگوں نے حکومتی احکامات اور (ایس او پیز) کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یوم علیؓ کے جلوس نکالے۔ جس میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ یہ جلوس سندھ سرکار کی سرپرستی میں نکالے گے۔ 
ان جلوسوں کے انعقاد اور سندھ سرکار کی طرف سے اہل تشیعوں سے امتیازی سلوک نے سنی قوم اور (ایس اوپیز) پر عمل درآمد کروانے والے علماءاکرام کے ساتھ بھی بدترین بددیانتی کرتے ہوئے انکے ذہنوں میں کئی خدشات کو ابھار دیا ہے۔

اہل تشیعوں کے بلاجواز جلوسوں کو سرکاری سرپرستی میں نکلوانے والی سندھ حکومت اخلاقی طور پر کسی بھی صورت مساجد کو بند نہیں کروا سکتی اور نہ ہی کسی مذہبی محفل کو کرونا کے خطرات کے پیش نظر رکوا سکتی ہے۔ 
سندھ حکومت کی شیعہ نوازی اور ہٹ دھرمی پاکستان میں اکثریت رکھنے والے مسلمانوں کے لیے انتہائ تشویش کا باعث ہے۔ ایسے بچگانہ فیصلے انتشار کی فضا بناتے ہیں امن کو تباہ کر دیتے ہیں۔
سندھ گورنمنٹ کی بیہودہ پالیسی اور فرقہ واریت پھیلانے کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ لکھنا بھی ضروری سمجھوں گا کہ سنی اکثریت ہونے کے باوجود کیوں اتنی بےحس ہے؟
یاد رکھیں اہل تشیع اپنے مشن میں اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ اپنا کام صبرو تحمل سے کرتے ہیں کہیں پر جذباتی نعروں سے کام نہیں چلاتے، اہل تشیع لابی اس وقت اتنی اسٹرونگ ہے کہ اس کے سامنے ادارے بھی بےبس ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی ہر جائز و ناجائز بات منوا لیتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اگر سنیت کا جائزہ لیں تو ہر طرف بکھرے ہوئے اور اپنی اپنی زندگیوں کو رنگین بنانے میں مصروف ہیں۔
دیوبند کے جس عالم دین کو لاکھوں علماء کا امام اور امام سیاست مانا جاتا ہے،وہ چند ہزار ووٹوں کی خاطر نہ صرف شیعوں کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے بلکہ انہیں مسلم کمیونٹی ڈکلیئر کرتے ہوئے ایک ایسی جماعت پر برس پڑتا ہے جس نے ناموس صحابہؓ کا دفاع کرتے ہوئے سینکڑوں قائدین شہید کروا دیے۔

سنی قوم مستقبل سے بےخبر آپس میں حیات،ممات،نور،بشر، رفع یدین، مشرک، گستاخ، وہابی، وغیرہ وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہے۔ مناظرے ہو رہے ہیں چیلنجز دیے جا رہے ہیں، ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں جیسے فتوے دیے جا رہے ہیں اور دیوبندی، بریلوی،اہلحدیث کے مشترکہ دشمن اپنے مشن کو لے کر بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔

مسلمانو!!! تمہیں یہ خاموش پیغام دیا گیا ہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے ہم جب چاہیں جہاں چاہیں جلوس نکال سکتے ہیں کوئ ہمارا بال بھیکا نہیں کر سکتا۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اہل تشیع مذہب کے پیروکار سب سے زیادہ ایران میں ہیں اور گورنمنٹ بھی وہاں اہل تشیعوں کی ہے اور پاکستان کی بنسبت وہاں کے شیعہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ لیکن ایرانی حکومت نے جب یوم علیؓ پر جلوس نہ نکالنے کی درخواست کی تو ایران کے تشیعوں نے لبیک کہتے ہوئے اپنی حکومت کا حکم مانا اور جلوس نہیں نکالے۔ کیا پاکستان کے شیعے ایرانی شیعوں سے زیادہ محبت علیؓ رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں یہاں ان کا مقصد ہے سنیت کو بتانا کہ چلے گی صرف ہماری۔

ہمارے مذہبی طبقات نے ہمیشہ حکمرانوں سے تعلقات بنا کر عیاشیاں کی ہیں یا پھر مخالفت میں کھڑے ہو کر پروپیگنڈے کرتے ہوئے یہودیت و قادیانیت کے فتوے لگا کر پھٹیچر سیاست کی ہے۔ لیکن عقل مند اہل تشیعوں نے ہمیشہ حکمرانوں سے بہتر تعلقات بنا کر اپنے مشن کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔
اب بھی وقت ہے مسلمانوں سدھر جاؤ آپس کی لڑائیاں ختم نہ کیں اقتدار کے لیے دشمنوں کو مسلم کمیونٹی بنا کر پیش کرتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب تمہیں زندگی جینے کے لیے خود کو شیعہ ثابت کرنا پڑے۔ کسی خوش فہمی میں مت رہنا شیعہ عقائد کے مطابق امام غیب کے ظہور کے بعد امام نے جو کام سب سے پہلے کرنا ہے وہ سنیت کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے، انکے ہاں دیوبندی بریلوی اہلحدیث کوئ معنی نہیں رکھتا سب کو ایک کٹیگری میں پرکھا جاتا ہے۔

اور دوسری طرف ہمارے سنی علماء جو شیعہ سے متاثر ہو کر یا ان کی خوشنودی کے لیے اپنی تقریروں میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر من گھڑت تاریخ کے ایسے قصے سناتے ہیں جن میں پیغمبرﷺ کے عظیم صحابی سیدنا امیرمعاویہؓ کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ شیعہ نے نا صرف حکومتی اہلکاروں اور اداروں میں اپنی جگہ بنائی بلکہ سنی علماء کے دلوں پر بھی ایسی ضرب لگائ کہ جب تک سنی عالم اپنے واعظ و نصیحت میں جھوٹی من گھڑت تاریخ بیان نہیں کرتا اسے سکون نہیں آتا۔

ایک مثال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، اہل تشیعوں کے ہاں بارہ اماموں کا عقیدہ رکھا جاتا ہے، جسے سنی نہیں مانتے ایک پنج تن کا عقیدہ رکھا جاتا ہے جسے محبت اہلبیت کے نام سے کچھ سنی بھی قبول کرتے ہیں۔
 ہمارے نزدیک پیغمبرﷺ کا ہر صحابیؓ، اہلبیت، ازواج مطہرات، سب برحق ہیں سب کی شان و مرتبہ ہے سب قابل عزت ہیں ان میں سے ہر ایک کی پیروی کرنے والا جنت کے راستے پر ہے۔
مگر اہل تشیعوں نے جو عقیدہ امامت گڑھا ہے اس میں بارہ اماموں کا جو مقام بیان کرتے ہیں وہ سب اپنی جگہ، میرا سنیوں سے سوال ہے۔ شیعہ کے ہاں بارہ اماموں میں جنت کے نوجوانوں کے سردار سیدنا حسنؓ و حسینؓ کا شمار تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتا ہے، مجموعی طور پر انکے عقائد کے مطابق بارہ امام ہیں۔ جبکہ سنی علماء بھی اپنی تقریروں میں حضرت حسنین کریمینؓ کے ناموں کے ساتھ امام کا لقب لگاتے ہیں۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں بیشک امام لکھا اور پکارا جائے وہ واقعی امت کے عظیم محسن ہیں مگر اتنا پوچھنے کا حق ضرور رکھتا ہوں یہ لفظ امام سیکھا کہاں سے کہیں وہی شیعہ والا امام تو نہیں مان رہے؟

امام مانو کوئ اعتراض نہیں مجھے لیکن ایک مطالبہ بحثیت مسلمان میرا بھی ہے تم حسنؓ و حسینؓ کے ناموں کے ساتھ تو امام لکھتے اور بولتے ہو مگر پیغمبرﷺ کے وہ یار جس کو خود نبی کریمﷺ نے پکڑ کر اپنے مصلے پر کھڑا کیا جس نے پیغمبرﷺ کی حیات میں 17نمازوں کی امامت کروائ اس ابوبکرؓ کے نام کے ساتھ امام کیوں نہیں لکھتے؟ عمرؓ عثمانؓ اور معاویہؓ کے نام کے ساتھ امام کیوں نہیں لکھتے؟ ثابت ہوا جسے شیعہ نے امام کہا سنی سنائ میں اسے سنی نے بھی امام کہا کیوں کہا یہ اسے خود بھی معلوم نہیں۔
 ایک اور مثال: حضرت حسینؓ کے بھائ حضرت حسنؓ کی بھی شہادت ہوئ تھی، بچہ بچہ آپ کو بتا دے گا کہ حضرت حسینؓ کو 10محرم الحرام کو کربلا میں شہید کیا گیا، مگر بڑے بڑے دانشور آپ کو یہ نہیں بتا سکیں گے کہ حضرت حسینؓ کے بھائی حضرت حسنؓ کی شہادت کب ہوئی کہاں ہوئی کیسے ہوئی؟ کیوں وہ اس لیے کہ حضرت حسنؓ کا یوم شہادت شیعہ نہیں مناتے میڈیا پر چرچا نہیں ہوتا، حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کا تذکرہ آپ کو میڈیا پر نہیں ملے گا اور سنی عوام کی اکثریت اس مظلومانہ شہادت سے بھی بےخبر ہو گی۔

عرض یہ ہیکہ ہر وہ کام جو شیعہ کی تاریخ میں، شیعہ کے عقائد میں نمایاں ہو گا، اس پر سنی بھی میدان میں کودتا ملے گا،مگر حقیقت سے کوسوں دور، وقت کا اولین تقاضا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسٹیٹ آف شیعہ بننے سے بچانے کے لیے اپنے نوجوانوں کو بہتر تعلیم دلوا کر ملک کے اعلی اداروں کی اعلی پوسٹوں پر فائز کیا جائے، میڈیا میں اپنی مضبوط لابی بنائ جائے، جو اصحاب رسولﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے ناموس کے لیے پروپیگنڈوں کا مقابلہ کرے۔ پارلیمنٹ کے لیے ان لوگوں کو منتخب کیا جائے جو ضمیر فروشی سے پاک ہو کر پیغمبرﷺ کے صحابہؓ و ازواج مطہراتؓ کے تحفظ کے لیے قانون پاس کروائیں۔

اور اگر سنی قوم خواب غفلت میں ڈوبی رہی تو ہاتھ سے سب نکل جائے گا۔ 
 اللہ تعالی ملک پاکستان کو دشمنان صحابہؓ کے شر سےمحفوظ رکھے اور مسلمانوں کو جرات و بہادری سے ہر فتنے کو روندنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                          ازقلم: محمد اشرف
موبائیل اور ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات کے لیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]