محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھر میں کوئ رشتےدار خاتون بھی آ جاتی تو ہم شرماتے ہوۓ گھر سے باہر نکل جاتے، اور اگر ان کےساتھ ہماری ہم عمر کوئ رشتےدار ہوتی تو اس وقت تک گھر میں قدم نہ رکھتے جب تک وہ گھر سے واپس نہ چلے جائیں، پورا پورا دن بھی بھوکے پیاسے گھر سے باہر گزر جاتا،
پتا نہیں یہ ہمارا تقوہ تھا، شرم و حیاء تھی نہ جانے کیا تھا کہ ہم ان خواتین کی موجودگی میں گھر کی طرف جانا گوارہ نہ کرتے،،

سکول میں کوئ لڑکی، سیاہی،مٹی،پنسل وغیرہ مانگنے آجاتی تو نظریں جھک جاتیں، بریک ٹائم جہاں ہم بیٹھے ہوتے کوئ فی میل کا ٹولہ قریب آ جاتا تو اپنی پوزیشن تبدیل کر لیتے اور دوسرے مورچے پر چل  کر بیٹھ جاتے،، یوں سلسلہ چلتا رہا ہماری تقوہ داری شرم حیاء کی مثال گھر تو محلے والے بھی دیتے،،

ایک دن ہمیں اپنےمحلے سےباہر کافی دور جانا پڑا،، وہاں کے پرائمری سکول کے بچے سکول کے آس پاس مختلف کھیلیں کھیل رہے تھے، ہم بادشاہ تیمور کی طرح بیٹھے ان کی شکلیں دیکھ رہے تھے،، اچانک اک اور قافلہ دیکھا جو ہماری طرف چہل قدمی کر رہا تھا وہ قافلہ فیمیل تھا سو ہماری نظریں بھی آٹو میٹک جھک گی، ہم بدستور اپنی جگہ پر براجمان رہے
جب آدھا قافلہ نکل پڑا تو ہم نے نگاہیں اٹھائیں، تو عجیب منظر تھا اک ننھی سی شہزادی ناک سے نکلے ہوۓ پانی پر زبان پھیرتے ہوۓ ہمیں گھور گھور کےدیکھے جا رہی ہیں، ہمیں یہ سین بہت پسند آیا،، پہلی بار ہم نے کسی فیمیل کو نظر اٹھا کر بغور دیکھا تھا
ہم اس سوچ میں ڈوبے جا رہے تھے،،کہ شاہد یہ ہمیں جانتی ہیں اس لیے بغور ہمارا معائنہ کر رہی ہونگی،، خیر وہ وقت گزر گیا، اک دن ہم اپنی پھوپھو کےگھر گے تو ہمارا کزن ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، جب انہوں نے اس کتاب کونیچے رکھا تو ہم نے کتاب کو اٹھا لیا، کتاب اردو زبان میں چھپی ہوئ تھی، اور اردو لکھنا پڑھنا ہمیں بہت پسند تھا، ہم نے کتاب کے اوراق الٹاۓ ادھر دیکھا ادھر دیکھا باریک لکھائ بہت متاثر ہوۓ ، چونکہ ایسی کتاب کو ہم نے پہلی بار دیکھا تھا، ہم نے ان سے کتاب مانگ لی کہ کچھ دن ہم اس کا مطالعہ کریں گے، اور پھر آپکو واپس لوٹا دیں گے، انہوں نے کتاب ہمیں دے دی، ہم خوشی خوشی گھر آۓ،، اور تنہائ میں بیٹھ کر مطالحہ شروع کر دیا-

کتاب کا نام تھا اردو ڈائجسٹ،، دکھی کہانیاں

پہلی کہانی مکمل پڑھنے میں ہمیں تقریبا" تین دن لگے تھے
جب ہم نے ایک کہانی پڑھی تو آگے مزید پڑھنےکو جی چاہا،، خدا خدا کر کے ہم نے اک طویل عرصے بعد پوری ڈائجسٹ پڑھ ڈالی،، جو جو کہانیاں ہم نے پڑھیں ہم نے انہیں سچ سمجھا اور عجیب احساسات محسوس کیئے تاہم ہم (پریم) کو اچھی طرح جان چکے تھے،ایک ڈیڑھ سال بعد ہم بیمار ہوۓ تو ہومیو پیتھک حکیم کے پاس گے، واپسی پر ہمارا راستہ پھر اسی سکول سے گزر کے جانا تھا، بہت غور غور سےدیکھا مگر وہ شہزادی نظر نہ آئ، ہم بھی ضد کر بیٹھے تھےکہ کم از کم اک بار تو دیکھیں گے ضرور
اس کے بعد ہم کئ مرتبہ وہاں گے بالآخر ہم نے انہیں دیکھا مگر تب کی بار انکا ناک بالکل صاف تھا، اور بھول کر بھی ان کی نظر ہم پر نہ پڑی، جب جب ہم ان کا دیدار کرتے ہمیں مزید دیدار کی طلب ہوتی، ہماری سمجھ میں بات آ نہیں رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے

اس دوران ہمیں ڈائجسٹیں پڑھنےکا شوق بھی بڑھتا گیا، دکھی کہانی پڑھ پڑھ کر ہم خوشی ہنسی بھول گے تھے، ہمیں کوئ یہ بتانے والا بھی نہ تھا یہ سٹوریز جھوٹی اور ٹائم ضائع کرنے کےلیے لکھی جاتی ہیں-

اب تو ہم زندگی کے کئ امور کو جان چکے تھے، ہم یہ بھی جان چکے تھے کہ ہر بچہ ہمیشہ بچہ ہی نہیں رہتا، بڑا ہوتا ہے، شادی کرتا ہے، گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے، ہم بھی اپنے خیالوں ہی خیالوں میں اس شہزادی سے نکاح کر چکے تھے،، تاہم ایسی بات کسی بہن بہائ دوست سےکرتے تب بھی ہم شرماتے تھے،،

اک طویل عرصے کے بعد ہم نے ڈرتے ڈرتے انہیں کاغذ کا ٹکڑا تھمایا،، جس پر صرف اتنا لکھا تھا ایک بات بتاؤ ہمارا دل آپ کےلیےکیوں اداس رہتا ہے،، جسکے بعد ہمیں کوئ مثبت جواب تو نہیں ملا مگر ان کی توجہ ضرور حاصل کر گے، ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ ہم سے بھی بات کرنے لگی،،
اس کے بعد گفٹوں کا سلسلہ چوری چھپے ملاقاتیں، اور پھر بات شادی تک جا پہنچی مگر ان کےخاندان والے نہ مانے انکی دوسری جگہ منگنی ہوئ

اس دوران اک طویل عرصہ بیت گیا تھا، ہم پوری طرح پاگل ہوچکے تھے، کبھی راتوں کو اٹھ کر صلوت حاجت پڑھ کر اللہ سےمانگنا تو کبھی پوری پوری رات دکھی گانے سننا، اور کبھی خود کشی کا من کرنا ذہنی ٹیشن نیندوں کا اڑ جانا چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنا، تنہائ میں رہنا،،، یعنی کہ بےلطف زندگی تک پہنچ جانا-

یہ تو میں نے ابتدائ تمحید لکھی ہے پوری سٹوری میں لکھنا نہیں چاہتا،،

اس بکواس سٹوری کو لکھنے کا مقصد یہ ہےکہ جب آپکے چھوٹے بہن بہائ بچے بچیاں لکھنا پڑھنا تھوڑا بہت سیکھ لیں، یا جب تک سٹوڈے کر رہے ہوں ان پر ہر لحاظ سے نظر رکھیں وہ کس کس کتاب کا مطالحہ کرتے ہیں، فری ٹائم کہاں گزارتے ہیں،موبائیل فون، انٹرنیٹ، ٹیوی پر بھی ان کی سرگرمیاں چک کریں-
چونکہ بہت خطرناک دور ہے- انڈین انڈسٹری کی مویز ہوں- یا پاکستانی ثقافت پر مبنی ڈرامے ان کو دیکھ کر تازہ خون لیلی مجنوں کےکردار کو بخوبی نبھانے پر رضا مند ہو جاتا ہے،،

اور پھر موبائل فون پر فری پیکج کی فراوانیاں بچوں اور ینگ لڑکے لڑکیوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ناجائز تعلقات بنائیں-

اس سےپہلا نقصان یہ ہوتا ہے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، اور جب عاشقوں کو معشوق نہ ملے تو ٹینشن، نشے پہ لگ جانا، کورٹ میرج یا لڑکی کو بلیک میل کرنےکا سلسلہ شروع کر دینا-
سانحہ مردان کی طرح مصوم لڑکیوں کو اپنی انا کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دینا یہ سب اسی کہانی کی لڑیاں ہیں-

چھٹی کلاس کے بعد کےسٹوڈنس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اشد ضروری ہے،

وگرنہ بہت سارے حادثات آپکا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں-

اور اگر اگر اگر کہیں پر پانی سر سے اوپر ہوگیا ہو تو ان کو آپس میں ملا دینا عقل مندی ہے-

نوٹ: آج کی تحریر بہت بیہودہ سہی مگر جو پیغام آپکو دے رہا ہوں اس پر نظر ثانی کر لیجئےگا-

بقلم: محمداشرف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]