رمضان المبارک میں اسلامی پروگرام کی میزبانی کے لیے حریم شاہ کا نام سنتے ہی کئ مذہبی جنونی لوگوں کا قلم حرکت میں آتا ہے اور سوشل میڈیا پر حریم شاہ سے متعلق بیشمار تحریریں مطالبے اور مذمتیں کرنے کے ساتھ ساتھ حریم شاہ کی سابقہ زندگی کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، انتہائ بیہودہ القابات لگا کر لکھا جاتا ہے ایسی عورت اب ہمیں لیکچر دے گی۔ اول تو یہ ہے کہ اللہﷻ نے ہر انسان کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے، جب بھی کوئ انسان صدقِ دل سے توبہ کرتا ہے رب تعالی اس کی پکار سنتے ہیں اور توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔ اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے والے کو اللہ تعالی پسند کرتے ہیں۔ جب رب تعالی اپنے بندے کو معاف کر دیتے ہیں تو انسان کون ہوتا ہے جو کسی کی توبہ کو نہ مانتے ہوئے اسے اس کے ماضی کے طعنے دے؟ حریم شاہ نے شہرت ٹک ٹاک سے حاصل کی سیاسی شخصیات کے ساتھ تصویریں بنائیں، شہرت کی بھوک میں حکومتی نمائندگان سے ملاقاتیں کر کے سرکاری عمارتوں تک رسائ حاصل کی اور میڈیا کی زینت بنی رہی، میڈیا کی ہیڈلائنز میں رہنے کے لیے سیاستدانوں اور وزرا کی ویڈیوز لیک کرنے کے بیانات بھی جاری کیئے۔ مگر آج وہی حریم شاہ کہتی ہے میرے پاس مزید کسی کی کوئ ویڈیوز نہیں جو تھیں وہ بتا چکی ہوں، میری وجہ سے جن لوگوں کو تکلیف پہنچی ان سے معذرت خواہ ہوں۔ حریم شاہ اپنی زندگی میں بدلاؤ لانا چاہتی ہے،اس کے سر پر دوپٹہ آ چکا ہے وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو چکی ہے تو آپ کو اعتراض کیوں بھئ؟ بحثیت مسلمان حق تو یہ ہے اسکا ویلکم کیا جائے اس کی حوصلہ افزائ کی جائے اسے عزت دی جائے تاکہ کئ اور حریم شاہ دین اسلام کی محبت سے متاثر ہو کر اس راستے پر چل پڑیں۔ مگر افسوس یہاں مذہبی دانشوروں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، رمضان ٹرانسمیشن نہ فرض ہے نہ سنت نہ ہی واجب اور نہ ہی اس کا تعلق رمضان سے دین کے اعتبار سے ہے۔ ماہ مبارک کی فضیلتوں پر بات کرنے کے لیے ٹیلی ویژن ادارے ایسے پروگرامز کرتے ہیں۔ اور ان تمام پروگرامز میں فنکار گلوکار وغیرہ ہی سرفہرست نظر آتے ہیں، تو جہاں درجنوں دیگر شوبز سے وابسطہ افراد ایسے پروگرام کرتے نظر آتے ہیں وہاں حریم شاہ نے کر دیا تو کونسی قیامت آ جانی ہے۔ حریم شاہ اگر کہتی کہ میں نے جمعہ پڑھانا ہے مسجد میں امامت کروانی ہے تو پھر آپ کا اعتراض بنتا تھا کہ شعائر اسلام کی توہین ہو رہی ہے۔ لیکن وہ ایک ایسا کام کر رہی ہے جو دینی اعتبار سے کوئ وجود ہی نہیں رکھتا تو خواہ مخواہ اپنا دماغ کھپانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور اگر ملک میں شریعت نافذ ہوتی ٹیلی ویژن پر کوئ عورت نہ بیٹھتی حریم شاہ پہلی عورت ہوتی جو یہ مطالبہ کرتی تو تب بھی آپ کا اعتراض بجا تھا۔ بقول حریم شاہ کہ اس نے جامعة المحسانات سے قرآن مجید ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھا ہے اور وہ خود کو اس قابل سمجھتی ہیں کہ وہ دین سے متعلق گفتگو کر سکتی ہیں تو اسے موقع دے دینا چاہیے جہاں غلطی کرے وہاں اس غلطی پر بولنا آپ کا حق ہے۔ ممکن ہے رمضان ٹرانسمیشن میں دین کی باتیں کرتے کرتے اللہ اس کا دل ایسا بدل دے کہ تقوہ کے لحاظ سے وہ مثال بن جائے۔ لیکن نہیں ہمارے مذہبی دانشوروں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کوئ بھی مرد و عورت توبہ تائب ہونے کے باوجود اپنے ماضی کے گناہوں کی بخشش کروانے کے باوجود بھی دینی امور پر بات نہیں کر سکتے، ہاں البتہ اگر کوئ قاری صاحب مولوی صاحب کسی معصوم بچے سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا بھی جائے تو وہ نیک بخت ہی ٹھہرے گا اس سے متعلق وہ الفاظ نہیں کہے جا سکتے جو حریم شاہ سے متعلق کہے جاتے ہیں، اس کی توبہ ایڈوانس میں قبول ہوتی ہے۔ عیاشی کی زندگی سے دین کی طرف آنے والوں کو عزت دو گے تو وہ جنیدجمشید شہیدؒ کی طرح اسلام کی تعلیمات پر عمل کر کے مثال بن جایا کریں گے۔ آج کے موجودہ دور میں ایسے لوگوں کو دین کی طرف لانے اور پھر ان کی حوصلہ افزائ کرنے میں مولانا طارق جمیل صاحب سب کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
حریم شاہ کے رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی پر مذہبی طبقے کا رد عمل کیوں
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں