محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

دانت آپ کی خوبصورتی کے ہی نہیں آپ کی اچھی صحت کے بھی ضامن ہوتے ہیں۔ اس لئے

دانت جہاں چہرے کی خوبصورتی میں نمایاں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں وہاں یہ اپنی دیکھ بھال کے معاملے میں حساس سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال اور صفائی میں عدم دلچسپی زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ دانت اور مسوڑھے جیسے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں وہاں ان کی بہتر نشوونما اور خطرناک انفیکشن سے بچائو کے لئے ان کی صفائی کو اولین ترجیح دینا بے حد ضروری ہے۔ بقول طبی ماہرین مسوڑھوں کی سوزش اور ان سے خون نکلنے کا عمل دانتوں کی پہلی بیماری ہے جسے جنی وائٹس کہتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک انفیکشن ہے جو مسوڑھوں اور دانتوں کو سپورٹ کرنے والی ہڈیوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جو دانت کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے۔


اگر آپ کا منہ بیکٹریا سے پاک نہیں ہو گا تو نہ صرف دانتوں اور مسوڑھوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ آپ کا جسم بھی انفیکشن سے متاثر ہو گا جس سے مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا بھی امکان ہو تا ہے۔ جو لوگ بیکٹریا کی وجہ سے دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوں وہ امراض قلب اور شریانوں کی بیماری میں آسانی سے مبتلا ہو سکتے ہیں۔


اگر دانتوں کی صفائی باقاعدگی سے نہ کی جائے تو دانتوں پر چونے کی طرح کا مادہ جم جاتا ہے جو دانتوں کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ دانتوں جمی اس سخت تہہ کو ٹارٹر کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسوڑھوں میں جلن اور سوزش ہو تی ہے۔ پانی میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہو توانسانوں کو دانتوں اور ہڈیوں کی طرح طرح کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانی میںفلورائیڈ کی زیادہ مقدار سے خاص بیماری فلورہ سس پیدا ہوتی ہے۔


دانتوں کی بیماریوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ دانتوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے۔ دن میں دو مرتبہ معیاری برش اور ٹوتھ پیسٹ سے صفائی کی جائے تاکہ دانتوں کے درمیان پھنسے اجزا دانتوں سے نکل جائیں۔ دانتوں کی حفاظت کے لئے تمباکو اور بہت زیادہ میٹھی اشیاء سے پرہیز کریں۔ اگر آپ کے دانتوں اور مسوڑھوں میں کسی قسم کا انفیکشن ہے تو آپ کے مسوڑھے سوج جائیں گے اور دانت کے اردگرد اس کی رنگت سرخ ہو گی۔ برش یا کھانا کھانے کے دوران مسوڑھوں سے خون نکلے گا۔ دانتوں کی جڑوں میں پلپ اور ٹارٹر واضح نظر آئے گا اور سانس  بدبو دارہو گی۔ مسوڑھوں کے انفیکشن سے دانتوں کی جڑیں کمزور ہو جا تی ہیں اور دانت ہلنے لگتے ہیں۔ دانتوں کی دیکھ بھال میں بے احتیاطی آپ کے دانتوں کی عمر کم کر دیتی ہے۔


 ڈینٹل سرجن ڈاکٹر جاوید اقبال پنجاب ڈینٹل ہسپتال کے پرنسپل ہیں۔ وہ پاکستان کے واحد ڈاکٹر ہیں جنہوں نے دانتوں کی ڈاکٹری کے علاوہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے اور جو ان کی سپیشلائزیشن ہے۔ انہوں نے پبلک ہیلتھ میں بھی ماسٹر کیا ہے۔ 2011ء میں انہوں نے بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پنجاب ڈینٹل ہسپتال کے فرائض سرانجام دیے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ معروف فزیشن اور کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے صدر ہیں ۔دانتوں کی دیکھ بھال اور اس کی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ان سے بات کی جو نذر قارئین ہے۔


ڈینٹل سرجن ڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا’’دانت کے تین حصے ہوتے ہیں۔ ایک دانت، دوسرا مسوڑھا اور تیسرا ہڈی (جبڑا) جس میں دانت کی جڑ ہوتی ہے۔ ان تینوں میں سے سب سے پہلے تیزی سے جس حصہ کو بیماری لگتی ہے وہ دانت ہے۔ دودھ کے دانتوں کے ساتھ چھ سال کی عمر میں نکلنے والے دانتوں کو ہم فرسٹ مولر کہتے ہیں۔ اس میں پہلی داڑھ نکلنی شروع ہو تی۔ اس وقت تک بچہ دانتوں کی اتنی حفاظت نہیں کر رہا ہوتا ہے۔  دودھ کے دانت چھ ماہ کی عمر میں نکلنا شروع ہو تے ہیں اور دو سال میں سارے دانت مکمل نکل کر گرتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے نئے دانت آجاتے ہیں۔ داڑھیں دودھ کے دانتوں کے بعد نکلتی ہیں اور وہ چھ سال کی عمر میں نکلنا شروع ہو تی ہیں۔ داڑھ  مستقل اور اہم ہوتی ہے بچے کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کی صفائی کیسے کرنی ہے۔ وہ سٹکی فوڈ (فاسٹ فوڈ، چاکلیٹ، ٹافی وغیرہ) بھی لیتا ہے۔ فاسٹ فوڈ  کے ذرّے دانتوں میں پھنس جاتے ہیں اور دانتوں کی صفائی نہ ہونے سے بیکٹریا دانت میں کیوٹی(کھوڑ) کا باعث بنتا ہے۔ فاسٹ فوڈ دانتوں کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ جو لوگ رات کو سونے سے پہلے دانت صاف نہیں کرتے  تو ان کے دانتوں میں پھنسے خوراک کے ذرّوں کی وجہ سے بیکٹریا تیزاب بناتے ہیں۔ اس تیزاب سے دانت کا اوپر انیمل والا حصہ متاثر ہوتا ہے جو دانت کو ضائع کرنا شروع کر دیتا ہے اور دانت میں کیوٹی بن جاتی ہے۔ جسے عام زبان میں لوگ کھوڑ کہتے ہیں۔ دانت میں جو کیوٹی بنتی ہے لوگ اس کو دانتوں کو کیڑا لگنا بھی کہتے ہیں۔ دانت کے اس کالے حصہ کو ہی کیوٹی کہا جاتا ہے۔


دانت کے تین حصے ہوتے ہیں۔ اوپر والے حصے کو انیمل (Enamen)اس کے نچلے حصے کو ڈینٹین کہتے ہیں۔ انیمل سخت اور بے جان ٹشو ہے جبکہ ڈینٹین زند ہ اور لچک دار ہوتا ہے۔ اس لئے جب ہم خوراک چباتے ہیں تو اس قوت کو ڈینٹین جذب کر لیتی ہے۔ ڈینٹین کے درمیان میں گوشت ہوتا ہے۔ جسے میڈیکل کی زبان میں پلپ کہتے ہیں ڈینٹین کے ذریعے خوراک پلپ کو ملتی ہے کیونکہ اس میں خون کی نالیاں آتی ہیں۔ جس سے ہم حساسیت محسوس کرتے ہیں۔ دانت کے اوپر حصے کو کروم اور نچلے حصے کو روٹ کہتے ہیں۔ ‘‘


 ایک سوال کے جواب میں ڈینٹل سرجن ڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا’’دانتوں کی ابتدائی بیماری دانت میں کیوٹی کا بن جانا ہے۔ اگر اس کابر وقت ٹریٹمنٹ نہ کروایا جائے یعنی اس کیوٹی (کھوڑ) کی فلنگ نہ کروائی جائے تو یہ مرض بڑھ کر پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ دانت کی فلنگ اس وقت تک ہی ممکن ہوتی ہے جب تک دانت میں تکلیف شروع نہ ہوئی ہو۔ جب دانت میں درد شروع ہو جائے تو اس کا مطلب ہے دانت کی اس بیماری نے انیمل کو بھی ضائع کر دیا ہے اور ڈینٹین کو بھی متاثر کیا ہے اور دانت کی کیوٹی پلپ تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے دانت میں درد ہے۔ اگر کیوٹی انیمل تک رہے تو دانت میں درد نہیں ہوتا مگر مرض رکتا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔ اگرانیمل تک بنی کیوٹی کی فلنگ کرا لی جائے تو مزیددانت خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ دانت میں کیوٹی ہونے سے وہاں خوراک کے ذرّے جمع ہو جاتے ہیں اور وہاں بیکٹریا حملہ آور ہو کر دانت کو بیمار کر دیتا ہے۔ بیکٹریا کو حملہ آور ہونے کا زیادہ موقع رات کو ملتا ہے جب انسان سو جاتا ہے۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ رات سونے سے پہلے ٹوتھ برش ضرور کرنا چاہئے ۔ صبح کُلی کر کے ناشتہ تو کیا جا سکتا ہے مگر ناشتے کے بعد ٹوتھ برش کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔‘‘


 انہوں نے کہا ’’ٹیڑھے میڑھے دانت ٹھیک کرنے کے شعبے کو آرتھو ڈینوٹک ڈیپارٹمنٹ کہتے ہیں۔ اب تو لڑکے بھی اپنے ابھرے اور ٹیڑھے دانتوں کو ٹھیک کرانے کے بارے میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر دانت با ہر کی جانب ابھرے ہوں تو ان کو بریسسز لگوانے کا بہترین اور آئیڈیل وقت گیارہ سے اٹھارہ سال کی عمر کا  ہوتا ہے۔ اگر دانت کو اندر کی طرف موڑنے کے لئے بریسسز قوت زیادہ لگا دی جائے تو اس سے بھی دانت متاثر ہوں گے۔ نیچر کے مطابق بریسسز کے ذریعے دانت کو موڑنے کی قوت ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔


دانتوں پر پیلے رنگ کی جمی سخت تہہ کو ٹارٹر کہتے ہیں۔ میڈیکل کی زبان میں اسے Culculessکہتے ہیں۔ یہ پیلا اس لئے ہوتا ہے کہ اگر ہمارے منہ کے پانی یعنی سلائیوامیں اور جو کچھ ہم کھاتے ہیں اس میں کیلشیم، فاسفیٹ اورسلفیٹ کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہو تو ان کی پیلے رنگ کی تہہ دانتوں کے ساتھ چپک جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ مسوڑھے کو دانت سے الگ کرنے لگتی ہے۔ اس سے مسوڑھا دانت سے الگ ہو جاتا ہے اس کے ساتھ علاوہ ہڈی جو روٹ کے ساتھ ہوتی ہے اس کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔ کیلشیم، فاسفیٹ اور سلفیٹ سلائیوا میں ہوتے ضرور ہیں مگر ان کی زائد مقدار دانتوں پر پیلے کی رنگ کی تہہ جما د یتی ہے۔ جس کو سکیلنگ کے ذریعے ہی صاف کیا جاتا ہے۔ ۔ ایسے مریض کو ڈاکٹر سے ہر چھ ماہ کے بعد ضرور رجوع کرنا چاہئے کیونکہ دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت اور ان کے علاج معالجے کے لئے ایک ماہر ڈاکٹر ہی مفید مشورے اور موثرعلاج کر سکتا ہے۔دانتوں کے ٹریٹمنٹ میں ایک انجکشن کے لئے سوئی اور دانت کو سن کرنے والی دوائی کی ضرورت ہوتی ہے اگر سوئی ڈس پوزایبل ہے یعنی تمام آلات جراثیم کش ہیں تو پھر دانت کسی  دوسرے انفیکشن سے محفوظ رہیں گے اگر انجکشن لگانے کے لیے ایک ہی سوئی مختلف مریضوں میں استعمال کی ہوئی ہو تب بھی سوئی کے ذریعے بیماری دوسرے مریضوں کے خون میں منتقل ہو سکتی ہے جس میں ہیپاٹائٹس بی اور سی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح دانت نکالنے کا فورمیپ صحیح طریقے سے جراثیم کش ہو تب ہی اس قسم کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے مریض کی ہسٹری لینے سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی بیماریوں کا علم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ایسے مریضوں کے ٹریٹمنٹ کے لئے آلات الگ ہی رکھے جاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای عام کھانے پینے کی چیزوں سے جبکہ بی اور سی خون کے ذریعے جسم میں منتقل ہوتا ہے۔‘‘


ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا’’ لوگوں میں دانتوں کی حفاظت اور اس کے بروقت علاج کی آگاہی میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔ اب پہلے کی نسبت لوگ دانتوں کے علاج کے  لئے بروقت ہمارے پاس آ جاتے ہیں کہ ہم دانتوں کی زندگی کیسے بڑھا سکتے ہیں۔منہ میں بدبو آنے کا تعلق دانتوں کی نہیں مسوڑھوں کی بیماری سے ہے مگر اس کی ابتداء دانت سے ہی ہوتی ہے۔ دانت میں کیوٹی ہو تو وہاں کھانے کے ذریعے پھنس جانے کی وجہ سے بیکٹریا اس پر اثرانداز ہوتا ہے اور جس سے انفیکشن پیدا ہوگا ۔ منہ سے بدبو مسوڑھوں کی بیماری  جنی وائٹس کی وجہ سے آتی ہے اس بیماری کی وجہ سے مسوڑھے پھول جاتے ہیں اور اس میں درد بھی ہوتا ہے پھر اس میں پیپ بھی پیدا ہو جاتی ہے اس کو ابتدائی جنی وائٹس کہتے ہیں اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ پرانا جنی وائٹس بن جاتا ہے اس میں مسوڑھے بڑھنے بھی شروع ہو جاتے ہیں یعنی مسوڑھوں کا گوشت دانت کو کور کرنا شروع کر دے گے جس سے مسوڑھے پھول جاتے ہیں اس کو ہم ابتدائی السری جنی وائٹس کہتے ہیں اس میں مزید مسوڑھوں کا درد بڑھ جاتا ہے کیونکہ اب مسوڑھوں میں زخم بھی ہو جاتے ہیں Ginvitis کا علاج یہ ہے کہ اگر ٹارٹر جما ہو تو اس کو صاف کروائیں اس کے بعد دانتوں کی فضائی باقاعدگی سے کریں اور ہر چھ ماہ کے بعد اپنے ڈاکٹر سے اس کا چیک اپ کروائیں کہ ٹارٹر کتنی ہے اگر اسے اتارنے کی ضرورت ہو تو اس کا ٹریٹمنٹ ہو تاکہ دانت اپنی اصل جگہ پر رہیں۔اگر دانت یا داڑھ نکل جائے تو اس کی جگہ چھ ہفتوں کے درمیان نیا دانت یا داڑھ لگوا لینی چاہیے کیونکہ چھ ہفتے اس میں ہیلنگ ہوتی ہے لیکن اگر نیا دانت لگوانے میں دیر کریں گے تو اس کی مخالف سمت کا دانت یا داڑھ بڑا ہونا شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ دانت زندہ ٹشو ہے لیکن دانت کے بڑھنے کا ہر عمل اتنا سست ہوتا ہے کہ بندے کو محسوس ہی نہیں ہوتا۔  اگر نکلے ہوئے دانت کی جگہ نیا دانت نہیں لگواتے تو ساتھ والے دانتوں میں بھی خلاء پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ دانت زندہ ٹشو ہونے کی وجہ سے حرکت کرتے ہیں اور ان کو حرکت کرنے کی جگہ مل جاتی ہے یوں وہ اپنی جگہ سے سرکتے ہیں جس سے دانتوں میں خلاء پیدا ہو جاتا ہے۔دانتوں کی بیماریوں سے دوسری بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں جیسے اگرآپ کھانے کو صحیح طرح سے نہیں چبائیں گے تو معدہ کو اس میں زیادہ کام کرنا پڑے گا ۔ خوراک کو معدہ  میں ہائیڈروکلورک ایسڈ حل کرتا ہے اگر خوراک صحیح طرح سے چبائی نہیں ہوئی گی تو وہ جلد ہضم بھی نہیں ہو گی اور اس سے معدے میں مسائل پیدا ہوں گے بدہضمی ہو سکتی ہے۔


 شوگر کے مریضوں میں منہ کا بیکٹیریا تیزی سے نشوونما پاتا ہے مگر شوگر کو کنٹرول کرنے کے بعد دانتوں کا علاج کروایا جا سکتا ہے کیونکہ شوگر کے مریضوں میں زخم دیر سے ٹھیک ہوتے ہیں اس لیے پہلے شوگر کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے اس کے علاوہ شوگر کے دانتوں کے علاج میں اور کوئی مسلہ نہیں ہوتا ۔کسی بھی ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے دانتوں کا پیلا پن دور نہیں ہو سکتا۔ اگرد انتوں پر بعض اوقات کوئی چیز جم گئی ہے اس کے لئے کچھ ٹوتھ پیسٹ ایسے ہیں جو تھوڑا بہت دانتوں کا پیلا پن ختم کر دیں گے۔ اگر دانت کے انیمل اور ڈینٹین میں کسی قسم وجہ سے پیلا پن آگیا ہے تو اس کا ٹوتھ پیسٹ کے ذریعے علاج نہیں ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے اس دانت کا حصہ ہوتا ہے۔


 فلورائیڈ کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے اس کو ہم دانت کی فلوروسز کہتے ہیں۔ گہرے پیلے دانت فلورائیڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔


دانت کی ہڈی کا انفیکشن ہو تو اس سے دانت کے نیچے ہڈی کے اندر گوشت جمع ہو کر رسولی بن جاتی ہے اگر رسولی سامنے کے دانتوں کی ہڈی میں ہو تو اس کی سرجری ہو جاتی ہے جبکہ داڑھوں کی ہڈی میں رسولی بن جائے تو اس کی سرجری نہیں ہو پاتی جس سے دانت کی ہڈی ضائع ہو جاتی ہے‘ انفیکشن کے بعد ہڈی کے نیچے گوشت بننے کو ہم گرونیو لوما کہتے ہیں جو رسولی بناتا ہے۔ جب رسولی بننا شروع ہو جاتی ہے تو وہ دانت کی ہڈی کو کھانا شروع کر دیتا ہے یہ سب سے زیادہ خطرناک عمل ہوتا ہے۔


 دانتوں کے کینسر کا دانتوں کی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ منہ کا کینسر جو بنتا ہے اس میں پان کھانے سے منہ میں زخم ہو جاتے اور زخم ٹھیک نہ ہونے یعنی زخم پرانا ہونے کے بعد کینسر بن جاتا ہے ۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا’’عقل داڑھ 18 سے 25 سال کی عمر میں نکلتی ہے اس عمر میں انسان سمجھ بوجھ اور سوجھ بوجھ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے اس عمر میں نکلنی والی داڑھ کو عقل داڑ کہتے ہیں۔ ویسے اس عمر میں نکلنے والی داڑھ کا تعلق عقل سے بالکل نہیں ہوتا۔ ‘‘


معروف فزیشن اور کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بتایا’’ منہ، دانت جسم کا بنیادی جزو ہے اصل میں  دانت  صحت اور بیماری کاگیٹ وے (Gate way)  ہے اگر دانت صاف اور صحت مند ہیں تو جسم صحت مند رہے گا اگر دانت گندے اور انفیکشن زدہ ہیں تو نت نئی بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ آج کل ہیپاٹائٹس سی اور بی کا انفیکشن زیادہ تر دانتوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے آج کل بہت سارے جعلی ڈینٹل کلینک کھلے ہوئے ہیں جن میں ڈینٹل آلات کو صحیح طرح سٹیرائلز Sterilize نہیں کیا جاتا اس طرح کے آلات جب ایک ہیپاٹائٹس سی یا بی کے مریض کو لگتے ہیں اور دوبارہ کسی صحت مند مریض کو لگائے جاتے ہیں تو ہیپاٹائٹس بی اور سی کے جراثیم مریض کے خون کے ذریعے بذریعہ دانتوں کے آلات کے صحت مند آدمی کو پہنچ جاتے ہیں اور یوں ایک اچھا بھلا شخص دانتوں کے آلات کے آلودہ ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس بی یا سی کی جان لیوا بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ پیٹ اور معدہ کی مختلف بیماریوں کے جراثیم بھی آلودہ کھانا، کٹے ہوئے پھل وغیرہ کھانے سے جسم مں منتقل ہو جاتے ہیں۔ صحت مند رہنے کے لئے دانتوں کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔ ضروری ہے کہ صبح اٹھتے وقت دانتوں کو برش کیا جائے پھر سوتے وقت بھی دانت صاف کئے جائیں۔


اسلام دین فطرت ہے اسلام میں چوبیس گھنٹے زندگی گزارنے کے اصول بتائے گئے ہیں کھانا کھانے کے بعد کُلی کرنے سے دانتوں میں موجود ریشے نکل جاتے ہیں اسی طرح وضو کرتے وقت اگر مسواک کر لی جائے تو اس سے دانت صحت مند رہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وضو کے وقت مسواک کر کے نماز پڑھنا کئی درجے افضل ہے اور جو ہمیشہ مسواک کرتا ہے اسے مرتے وقت کلمہ نصیب ہوگا۔ مسواک کرنے کے اور بھی بے شمار فائدے ہیں اس سے منہ کی بدبو ختم ہو جاتی ہے کھٹے ڈکار نہیں آتے۔ بدہضمی دور ہو جاتی ہے مسواک کرنے سے نظر تیز ہو جاتی ہے تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں کوئی علاقہ فتح نہیں ہو رہا تھا۔ امیر لشکر نے سب ساتھیوں کو حکم دیا کہ سب نماز سے پہلے مسواک کریں دریا کے دوسرے کنارے دشمن کی فوج تھی۔ ساری فوج نے مسواک کرنا شروع کر دی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو مسواک کرتا دیکھ کر کافر فوج میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ سراسمیگی پھیل گئی ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ انسان نہیں دیو ہیں۔ یہ ہمیں کچا کھانے کے لئے دانت تیز کر رہے ہیں۔ دشمن فوج دیو آمد دیو آمد کہتے ہوئے پسپا ہو گئی۔ یوں ایک سنت زندہ کرنے سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی۔ پیٹ کی بیماریوں کے علاوہ بہت سی دوسری بیماریوں کے جراثیم بھی منہ اور دانتوں کے ذریعے بیمار آدمی سے صحت مند جسم میں منتقل ہوتے ہیں۔


مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]