محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

حضرت خدیجہؓ حضور اقدس ﷺ کی سب سے پہلی بیوی ہیں جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی والدہ اور حضرت حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نانی تھیں ان کے والد کا نام خویلد دادا کا نام اسد اور والدہ کا نام فاطمہ اور نانی کا نام زائدہ تھا۔ نسباً قریشیہ تھیں۔ چالیس سال کی عمر میں حضور ﷺ سے شادی کی۔ اس وقت جناب رسالت مآب ﷺ کی عمر شریف 25سا ل تھی۔


جب حضرت خدیجہؓ کے دونوں شوہر یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے تو ان کی شرافت اور مال داری کی وجہ سے مکہ کا ہر شریف اس کا متمنی ہوا کہ حضرت خدیجہﷺ سے عقد کرے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت خدیجہؓ کو اشرف الخلائق ﷺ کے نکاح پر فلاح میں آنا نصیب ہوا اور ام المومنین کے مکرم لقب سے نوازی گئیں۔


حضرت خدیجہ نے آنحضرت ﷺ کی دیانت وامانت داری اور معاملہ کی راست بازی کی وجہ سے خود ہی آپ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپؑ میرا مال شام لے جائیں۔ دوسروں کو جو نفع دیتی ہوں آپ کو اس سے دو گنا نفع دوں گی۔ چنانچہ آپؐ نے منظور فرمایا اور اسباب تجارت لے کر شام کو روانہ ہوئے حضرت خدیجہؓ نے اپنا ایک غلام بھی آپ کے ساتھ کر دیا تھا جس کا نام میسرہ تھا۔ آپ نے نہایت دانشمندی سے حضرت خدیجہؓ کے مال کی تجارت کی جس کی وجہ سے ان کو گزشتہ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال بہت زیادہ نفع ہوا۔


شام سے واپس ہو کر جب مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو دوپہر کا وقت تھا اس وقت حضرت خدیجہؓ اپنے بالا خانے میں بیٹھی ہوئی تھیں ان کی نظر آنحضرت پر پڑی تو دیکھا کہ دو فرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے اپنے غلام میسرہ سے بھی (اسی قسم کے) عجیب عجیب حالات سنے اور راہب کا یہ کہنا بھی میسرہ نے سنا دیا کہ یہ نبی آخرالزمان ہوں گے۔ لہٰذا حضرت خدیجہؓ نے خود ہی نکاح کا پیغام آپ کی خدمت میں بھیج دیا۔


نکاح کے لئے حضرت حمزہؓ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اکابر حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے اور نکاح ہوا۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ کے والد زندہ نہ تھے۔ ہاں اس نکاح میں ان کے چچا عمر و بن اسد شریک تھے اور ان کے علاوہ حضرت خدیجہؓ نے اپنے خاندان کے دیگر اکابر کو بھی بلایا تھا عمر و بن اسد کے مشورہ سے 500درہم مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہؓ ام المومنین کےً شرف خطاب سے ممتاز ہوئیں۔

حضرت خدیجہؓ کو یہ منقبت حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوئیں یعنی حضور اقدس ﷺ کی دعوت اسلام تمام انسانوں سے پہلے انہوں نے قبول کی۔ ان سے پہلے نہ کوئی مرد اسلام لایا نہ عورت نہ بوڑھا نہ بچہ۔ صاحب مشکوۃ الاکمال فی اسماء الرجال میں لکھتے ہیں:۔


تمام انسانوں سے پہلے حضرت خدیجہؓ اسلام لائیں تمام مردوں سے بھی اور تمام عورتوں سے بھی پہلے۔


حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ البدایہ میں محمد بن کعب سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔ (یعنی امت میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ نے اسلام قبول کیا اور مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنیوالے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ ہیں)۔


اسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہؓ کا بہت بڑا حصہ ہے نبوت سے پہلے حضور اقدس ﷺ تنہائی میں عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہؓ آپؐ کے لئے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دیدیا کرتی تھیں۔ آپؐ حرا میں کئی کئی رات رہتے تھے جب خوردونوش کا سامان ختم ہو جاتا تو آپؐ تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے تھے ایک دن حسب معمول آپؐ حراء میں مشغول عبادت تھے کہ فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ اقراء یعنی پڑھئے آپ نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ نے آپ ؐکو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑ دیا اور پھر کہا اقراء (پڑھئے) آپ نے بھر وہی جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ نے دوبارہ آپؐ کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑ دیا اور پھر پڑھنے کو کہا ۔ آپؐ نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہو ا نہیں ہوں فرشتے نے پھر تیسری مرتبہ آپ ؐکو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپ ؐکو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگا۔


یہ آیات سن کر آپ نے یاد فرما لیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا (مجھے کپڑا اڑھا دو مجھے کپڑا اڑھا دو۔)


انہوں نے آپ کو کپڑا اڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی طبعی کیفیت جاتی رہی اس کے بعد آپ نے حضرت خدیجہؓ کو اپنا سارا واقعہ سنا کر فرمایا۔ (مجھے اپنی جان کا خوف ہے)


عورتیں کچی طبیعت کی ہوتی ہیں اور مرد کو گھبرایا ہوا دیکھ کر اس سے زیادہ گھبرا جاتی ہیں لیکن حضرت خدیجہؓ ذرا نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئے خوب وجم کرفرمایا۔


خدا کی قسم ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تمہاری جان کو مصیبت میں ڈال کر) آپ کو رسوا کرے (آپ کی صفات بڑی اچھی ہیں ایسی صفات والا رسوا نہیں کیا جاتا ہے) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمان نوازی۔ آپ کی خاص صفت ہے۔ آپ بے بس و بے کس آدمی کا خرچ برداشت کرتے ہیں او عاجز و محتاج کی مدد کرتے ہیں اور مصائب کے وقت حق کی مدد کرتے ہیں۔


حضرت خدیجہؓ! اللہ و رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور رسول اللہﷺ کے دین کی تصدیق کرنیوالی تھیں ان کے اسلام قبول کرنے سے اللہ نے اپنے رسولﷺ کے مصیبت ہلکی کر دی ( جسکی تفصیل یہ ہے کہ) کہ جب دعوت اسلام دینے پر جب آپ کو الٹا جواب دیا جاتا اور آپکو جھٹلایا جاتا تو اس سے آپکو رنج پہنچتا حضرت خدیجہؓ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس رنج کو دور فرما دیتے تھے۔ جب آپؐ گھر میں تشریف لاتے تو وہ آپکی ہمت مضبوط کر دیتی تھیں اور رنج ہلکا کر دیتی تھیں آپ ؐکی تصدیق بھی کرتیں اور لوگوں کی مخالفت کو آپ کے سامنے بے جان بنا کر بیان کرتی تھیں۔


سیرت ابن ہشام میں حضرت خدیجہؓ کے متعلق لکھا ہے۔ ہر وہ مصیبت جو حضور اقدس ﷺ کو دعوت اسلام میں پیش آتی حضرت خدیجہؓ پوری طرح اسمیں آپ کے شریک غم ہوتیں اور آپ کے ساتھ خود بھی تکلیفیں سہتی تھیں آپؐ کی ہمت بندھانے اور بلند ہمتی کیساتھ ہر آڑے وقت میں آپکا ساتھ دینے میں ان کو خاص فضیلت حاصل ہے۔


اسلام کے فروغ میں حضرت خدیجہؓ کا مال بھی لگا:۔ حضر ت خدیجہؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت گذاری اور دلداری میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا اور اپنے مال کو بھی اسلام اور داعی اسلام ﷺ کی ضروریات کے لئے اس طرح پیش کر دیا تھا جیسے اس مال میں خود کو ملکیت کا حق ہی نہیں رہا۔ قرآن مجید میں اللہ جل شانہ، نے آنحضرت ﷺ کو جو خطاب فرمایا ہے۔


اور تم کو اللہ نے بے مال والا پایا پس غنی کر دیا۔


حضرت خدیجہؓ کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آنحضرتﷺ کی اولاد صرف ان ہی سے پیدا ہوئی۔ اور کسی بیوی سے اولاد ہوئی ہی نہیں صرف ایک صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ آپؐ کی باندی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کے چار لڑکیاں ہوئیں اور اکثر کی تحقیق یہ ہے کہ ان میں سب سے بڑی حضرت زینب پھر حضرت رقیہ پھر حضرت ام کلثوم پھر سیدہ حضرت فاطمہ زہراؓ تھیں۔


حضرت خدیجہؓ پاکیزگی اخلاق کی وجہ سے اسلام سے پہلے ہی طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ پھر حضور اقدس ﷺ کے نکاح میں آکر انہوں نے جو اپنی دانش و عقلمندی اور خدمت گذاری سے فضائل حاصل کئے ہیں ان کا تو کہنا ہی کیا ہے۔

حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی بیویوں میں سے کسی بیوی پر بھی مجھے اتنا رشک نہیں آیاجتنا حضرت خدیجہؓ پر آتا تھا۔ حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ ان کو اکثر یاد فرمایا کرتے تھے اور اکثر یہ بھی ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے تو اس میں سے حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو تلاش کر کے گوشت بھجواتے تھے۔ ایسے موقع پر بعض مرتبہ میں نے کہا آپ ِؐؐکو ان کا ایسا خیال ہے جیسے دنیا و آخرت میں ان کے علاوہ آپ ؐکی اور کوئی بیوی ہی نہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ایسی اچھی تھیں ایسی اچھی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔ سبحان اللہ وفاداری اور یاد گاری کی یہ مثال کہاں ملے گی کہ صاحب محبت کے وفات پا جانے پر اس کے دوستوں سے برتاؤ رکھا جائے وہ خود زندگی میں اپنے دوستوں سے رکھتا اور اس پر خوش ہوتا۔


ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ آپؐ کی خدمت میں کھانا اور سالن لے کر جا رہی تھیں ابھی پہنچنے بھی نہ پائی تھیں کہ حضرت جبریلؑ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ خدیجہ آرہی ہیں وہ آپؐ کے پاس پہنچ جائیں تو ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے اور ان کو جنت کا ایسا مکان مل جانے کی خوشخبری سنا دیجئے جو موتیوں کا ہو گا جس میں نہ ذرا شور و شغب ہو گا نہ ذرا تکلیف ہوگی۔


جنت میں خلاف طبع اور مکروہ آواز تو کسی کے کان میں بھی نہ آئے گی مگر خصوصیت کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کو جو ایسے مکان کی بشارت دی گئی یہ غالباً اس لئے کہ دشمنان اسلام ، اسلام ا ور داعئ اسلامﷺ کے خلاف جو طرح طرح کی باتیں کرتے تھے وہ ان کے کانوں پڑتی تھیں ان کی وجہ سے جو سخت کوفت ہوتی تھی اس کی وجہ سے تسلی دینے کیلئے یہ خصوصی بشارت دی گئی۔


حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد اور فاطمہؓ بنت محمدﷺ اور مریمؓ بنت عمران اور آسیہؓ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لا کر گھر سے باہر نہیں جایا کرتے تھے جب تک حضرت خدیجہؓ کا تذکرہ نہ فرما لیتے تھے۔ ایک مرتبہ جو آپؐ نے ان کا ذکر فرمایا تو مجھے عورتوں والی غیرت سوار ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ ایک بڑھیا کو آپ یاد کرتے ہیں تو آپؐ بہت ناراض ہوئے۔ اس کے بعد میں نے طے کر لیا کہ کبھی خدیجہؓ کو برائی سے یاد نہ کروں گی۔


جب تک حضرت خدیجہؓ زندہ رہیں آنحضرت ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ اور دوسری ازدواج مطہرات سے نکاح ہوا۔

حضرت خدیجہؓ نے ۱۰ھ نبوی میں ماہ رمضان المبارک مکہ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 65سال کی تھی۔ حضور ﷺ کی صحبت میں کچھ کم و بیش 25 سال آپ کو نبوت سے پہلے اور 10برس نبوت مل جانے کے بعد ۔آپؓ حجون میں دفن کر دی گئیں جسے اب جنت المعلی کہتے ہیں۔ رضی اللہ عنہا

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

تحریر کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]