محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



مانسہرہ بالاکوٹ کی سیاسی تاریخ میں الیکشن 2018 اپنی نوعیت کا ایک منفرد الیکشن تھا جس میں تین دہائیوں سے ناقابل شکست رہنے والے سردار گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور سردار گروپ کے سابق ایم پی اے میاں ضیاءالرحمن کی نااہلی کے بعد26فروری2019کو ہونے والے ضمنی میں بھی 25جولائ2018  این اے13کی تاریخ کو دہرایا گیا۔

عام انتخابات میں سردار گروپ کے ہاتھ سے این اے13قومی اسمبلی کا حلقہ نکلا اور اب 26فروری کوPK30سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

سردار گروپ نے سیدقاسم شاہ کے بیٹے سیدمظہرعلی قاسم کو اپنا متفقہ امیدوار منتخب کیا تھا اور سردار محمد یوسف سردار شاہجہان یوسف میاں ضیاءالرحمن اور ان کے صف اول کے اتحادی راہ حق پارٹی بالاکوٹ کے قائدین نے مظہرقاسم کی انتخابی مہم چلائی اور سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور امیرمقام جیسے (ن)لیگ کے مرکزی قائدین بھی بالاکوٹ کے مقام پر مظہرقاسم کی کمپیئن کے لیے گے، مگر عوام نے بجائے مظہرقاسم کے احمدشاہ کو مناسب سمجھا۔


مظہرقاسم خود بھی ووٹ بنک رکھتے ہیں، راہ حق پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی سردار یوسف اور میاں ضیاءالرحمن کی مکمل سپورٹ حاصل تھی باوجود اس کے مظہر قاسم کی شکست اور وہ بھی بھاری لیڈ سے تعجب کی بات تو ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا عوام کا سردار یوسف اور میاں ضیاءالرحمن سے اعتماد اٹھ گیا ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اگر نہیں تو پھر ووٹ کیوں نہ دیا؟


اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ میاں ولی الرحمن مرحوم ؒ  کے اختلافات اور جنگ کیوائ والوں سے تھی کس شدت سے تھی اور کیوں تھی یہ الگ ٹاپک ہے آپ بخوبی جانتے ہیں اور بہت لوگ اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔

لیکن سردار محمد یوسف نے باوجود اس کے ن لیگ کا ٹکٹ مظہرقاسم کو دلوایا۔ اور میاں ضیاءالرحمن صاحب سے حمایت بھی کروائی۔ مظہر قاسم کو ٹکٹ دلوا کر آئندہ الیکشن کے لیے سردار یوسف نے کیا پلاننگ بنائ یہ اللہ جانے یا وہی جانے،،،مگر سردار محمد یوسف صاحب کے اپنے گھر کے علاوہ گجر قوم میں سے بشمول میاں خاندان کسی شخص کو آگے لانے کے لیے سردار صاحب نہ کل تیار تھے نہ آئندہ اس کی توقع کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا کرنا ہی ہوتا تو اس ضمنی الیکشن میں یہ آزمائش کی جا سکتی تھی۔ 

یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس سے میاں ولی الرحمن مرحوم ؒ  کے چاہنے والے اور اکثر گجر قوم نے مظہرقاسم کے خلاف ووٹ استعمال کرنا مناسب سمجھا۔

دوسری وجہ سردار محمد یوسف صاحب کی ناقص پرفارمنس ہے۔ عوام یہ سمجھ چکے ہیں بالخصوص ینگ جنریشن کہ سردار محمد یوسف 35کے بجائے 70سال بھی پاور میں رہیں تو بالاکوٹ کے لیے انہوں نے وہ کچھ نہیں کرنا جو انہیں کرنا چاہیے یا جو کرنے کا حق ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مظہرقاسم ن لیگ کے ٹکٹ پہ لڑ رہے ہیں اگر مظہرقاسم جیت بھی جائیں تو وہ کام نہیں لے سکیں گے چونکہ اس وقت صوبے اور وفاق دونوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔یہی بات احمد حسین شاہ کے سٹیج سے بھی گونجتی سنی گئ ہے کہ حکومتی امیدوار کو ووٹ دے کر ترقی کا آغاز کریں۔

ایک چیز اور نوٹ کر لیں!! کیا احمد حسین شاہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لڑنے کی وجہ سے جیتے؟ اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے گا۔ بالاکوٹ کی تاریخ گواہ ہے یہاں ووٹ کبھی بھی نظریے کی بنیاد پر نہیں پڑا بلکہ قوم پرستی اور تعصب کی بنیاد پر پڑتا رہا ہے۔ لیکن عام انتخابات2018اور ضمنی الیکشن2019میں بالاکوٹ کے عوام نے یہ ثابت کیا کہ اب ووٹ کا حقدار وہی ہو گا جو کھوکھلے نعروں کے بجائے عملی طور پر کام کرے گا۔ احمد حسین شاہ کی جیت کے پیچھے بھی بنیادی نقطہ یہی ہے۔عام انتخابات2018میں سیداحمدحسین شاہ پیپلزپارٹی میں تھے باوجود اس کے میاں ضیاءالرحمن سے اچھا مقابلہ کیا تھا۔ جہاں پیپلزپارٹی کا نام ہی نہیں وہاں پر پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر کثیر ووٹ حاصل کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احمدحسین شاہ کا ذاتی ووٹ بنک بھی بکثرت ہے۔

جو صرف اور صرف ترقی کے نعرے اور سردار صاحب کی کارکردگی سے مایوسی کی وجہ ہے۔


لیکن یہ کھیل یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ اصل کھیل اب شروع ہوا ہے۔ ینگ جنریشن پوری طرح سے سیاست میں دلچسپی لے رہی ہے اور علاقائ مسائل کے لیے فکرمند ہے۔ ماضی کی طرح الیکشن جیت کر اسلام آباد میں بیٹھ جانا اب کی بار مہنگا پڑ سکتا ہے۔

اور سیداحمدحسین شاہ کا تو یہ ہے بھی اصل امتحان!!! چونکہ احمدحسین شاہ کا نعرہ ہی ترقیاتی کام کروانا تھا۔ اور عوام کی اکثریت نے ووٹ بھی اسی بنا پر دیے، پھر احمد حسین شاہ کے پاس موقع بھی سنہری ہے چونکہ صوبےاور وفاق میں حکومت بھی ان کی پارٹی کی ہے۔ اگر احمدحسین شاہ دوبارہ پی کے30پر سیٹ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو عوام سے کیئے گے وعدے پورے کرنے ہونگے اور  ترقی کے بادشاہ ہونے کا دعوہ بھی سچ کر دکھانا ہو گا۔ورنہ جو قوم 35سال کی رفاقت محبت کو خیرآباد کہہ کر ترقی کے پیچھے چلی ہے۔ وہ ترقی کے بادشاہ کی ناقص پرفارمنس پر اسے بھی مسترد کر سکتی ہے۔

اور عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی بھی چاہیے چونکہ آواز نہ اٹھانے سے منتخب نمائندے بھی لمبی تان کے سو جاتے  ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ  نوجوان نسل نے تعصب اور قوم پرستی کو شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے۔ کسی زمانے میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب منتخب نمائندگان کو بھی چاہیے عوام کے اعتماد کا بھرم رکھے اور ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے رویے بھی عوام سے دوستانہ رکھے۔ الیکشن سے چند دن قبل ایک دوست سے گپ شپ ہو رہی تھی تو باتوں باتوں میں کہنا لگا،، جیت کے بعد کاغان والوں کے رویے بڑے سخت ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرف فصل کاشت کے لیے جانے والوں کو بھی کچھ لوگوں کی طرف سے ستایا جاتا ہے۔

خیر مجھے تو ایسے واقعات کا ذاتی طور پر علم نہیں ہے۔ اور نہ ہی کبھی اس طرف جانا ہوا، بلکہ سچ تو یہ ہے میں بھونجہ سے آگےکبھی گیا ہی نہیں۔ 

اگر یہ بات سچ ہے کہ فصل کی کاشت کے لیے جانے والوں سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تو اس پر سیداحمدحسین شاہ کو نوٹس لے کر ان لوگوں کی تمام مشکلات کو آسان بنانے کےلیے کام کرنا ہو گا۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ فصل کی کاشت کے لیے جانے والوں کے ساتھ کوئ مقامی ناجائز برتاؤ اور برے سلوک سے پیش نہ آئے جب ان لوگوں سے دوستانہ رویہ رکھا جائے گا اگلی بار آپ کو ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ وہ لوگ آپ کے آپ کی جیت میں آپ کی سوچ سے زیادہ معاون ثابت ہوں گے۔


اور اگر کہانی اس کے برعکس ہوئی ان لوگوں کو ستایا گیا تو ایک بات سبھی جانتے ہیں جو مشہور و معروف بات ہے وہ یہ کہ سردار یوسف کام کرے یا نہ کرے کم از کم کسی پر ظلم زیادتی تو نہیں کرتا۔ پھر لوگ ترقی کے بجائے شرافت پر مہر لگا کر فیصلہ بدل بھی سکتےہیں۔

وقت کا اولین تقاضا ہے احمد حسین شاہ تمام قبیلوں کو ساتھ لے کر چلیں اور بلا امتیاز عوام کے مسائل کے لیے اپنا کردار ادا کریں چونکہ اس سے زیادہ سنہری موقع پر شاید ہی ملے۔ چونکہ پی کے30کی بدنصیب عوام کو ہمیشہ نعروں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ان کے حقوق کے لیے لڑنے کی کوشش بہت کم دیکھی گئ۔ اور ایک بات سیداحمدحسین شاہ کو ابھی سے نوٹ کر لینی چاہیے۔ جن پی ٹی آئ کے کارکنوں نے آپ کو ووٹ سپورٹ کیا ان کا مقصد آپ کو الیکشن جتوانا تھا اب اگر آپ اچھے کام کریں گے تو ان کی طرف سے بھرپور حوصلہ افزائی ہو گی اور اگر ماضی کے نمائندوں کی طرح لولی پاپ دینے کی کوشش کی تو مخالفین سے زیادہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔


فی الحال ہم بہتر کی توقع رکھتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی احمدحسین شاہ کو کیئے گے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]