محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

قسط نمبر1

تاریخ انسانی پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں عشق و محبت کی بہت سی داستانیں نظر آتی ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق تو صرف اور صرف افسانوں تک ہی ہوتا ہے حقیقت میں انکا کوئی وجود نہیں ہوتا لیکن کچھ داستانیں ان میں ایسی ہوتی ہیں جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں اور دنیا میں بطور نمونہ کے پیش کی جاتی ہیں

انہی میں سے ایک داستان مکے کے ایک کپڑے کے تاجر جناب سیدنا صدیق اکبر ؓ کی ہے آپؓ کا اصل نام عبداللہ آپ کا لقب صدیق اور کنیت ابوبکر تھی ۔آپؓ کے بچپن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جو نبوۃ ملنے تک باقی رہے ۔۔۔۔۔انہیں تعلقات کی بناء پر نبوت ملنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے  بعد سب سے پہلے ابوبکر کو اسلام کی دعوت دی جس پر ابوبکر صدیقؓ نے بغیر کسی تامل و فکر اور بغیر کسی دلیل کا مطالبہ کئیے لبیک کہا اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔

قبول اسلام کے بعد ابوبکرؓ نے دعوت و تبلیغ کو اپنے اولین فریضے کے طور پر سرانجام دیا اور اپنے تعلقات کے لوگوں میں  جا کر اسلام کی دعوت دینے لگے اور انہیں شرک کے اندھیروں سے نکال کر نور ایمان کی طرف لانے کیلئے کوشاں ہو گئے ۔آپؓ  کی انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اولین مسلمین میں اکثریت کی تعداد ایسی تھی جو ابوبکرؓ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئی ۔۔

اسلام کے شجر کو یوں پھلتا پھولتا دیکھ کر کفار مکہ کو بھلا کیسے چین ملتا ۔انہوں نے اس شجر کو بے ثمر کرنے کیلئے اسکے پھولوں کو توڑنے اور جڑوں کو کاٹنے کیلیے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے مسلمانوں پر اور بالخصوص آقا مدنی علیہ الصلوۃ والسلام پر طرح طرح کی مصیبتوں کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے آپکو ایذارسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے 

چنانچہ ایک مرتبہ قریش کے کچھ لوگ جمع ہو کر حضورﷺ کو مارنا شروع ہوگئے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو گئے جب ابو بکر صدیقؓ نے یہ منظر دیکھا تو فورا آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار سے بچا سکیں چنانچہ قریش نے آپؓ کو زدکوب کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ بھی بیہوش ہو گئے جب آپ کو گھر لایا گیا تو جسم زخموں سے چھلنی ہو چکا تھا لیکن جیسے ہی ہوش آتا ہے اس عاشق صادق کی زبان پر یہی ایک سوال آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اپنا جسم زخموں سے چور چور ہے اسکی کوئی پرواہ نہیں لیکن رسول اللہﷺ کو کوئی آنچ آئے یہ برداشت نہیں ۔

واقعہ معراج کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء و معراج کا سارا قصہ بیان کیا تو قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے لگے کہ اتنے مختصر وقت میں کیسے بیت المقدس تک کا سفر اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش بریں تک کا سفر کس طرح سے ممکن ہو سکتا ہے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے سوالات کرنا شروع کر دئیے ایسے میں کسی  نے جا کے بطور طنز ابوبکرؓ سے کہا کہ تیرا دوست یہ یہ کہتا ہے تیرا اس پر کیا تبصرہ ہے تو اس عاشق صادق نے جو جواب دیا وہ سنہرے حروف کے ساتھ لکھنے کے قابل ہے ۔

فرمایا : اے مشرکین مکہ غور سے سنو:اگر یہ دعوی کوئی عام انسان کرتا تواسمیں صداقت کا ذرہ بھر بھی امکان نہیں تھا لیکن جب یہی بات عبداللہ کے لخت جگر نے کہہ دی ہے تو اب اس میں شک کرنے کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے ۔

اسی وجہ سے تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے آپؓ کو صدیق کے لقب سے ملقب فرمایا کہ سارا عرب جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہا تھا اس وقت اس عاشق صادق نے بغیر کسی تامل کے آپﷺ کی تصدیق کی ۔

اور اللہ تعالی نے بھی پھر ہر مشکل وآسان سفر میں آپ کو اپنے پیارے حبیبﷺ کی رفاقت خاص  عطاء فرمائی ۔

چنانچہ جب مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایاابوبکرؓ ۔

اس بات کا علم جب ابو بکر صدیقؓ کو ہوا تو آپؓ نے اسی وقت دو اونٹنیاں خاص سفر ہجرت کیلیے خرید لیں اور انتظار فرمانے لگے ۔ چنانچہ جب ہجرت کی رات آن پہنچی اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام رات کی تاریکی میں ابوبکرؓ کے گھر پہنچے اور وہاں سے غار ثور کی طرف روانہ ہوگئے رات کی اس تاریکی میں آقاﷺ کے صدیقؓ کی رفاقت میں سفر کے دوران چشم فلک نے عجیب و غریب مناظر دیکھے کہ ابوبکرؓ کبھی اپنی اونٹنی کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے کر لیتے پھر تھوڑی دیر کے بعد اونٹنی کو پیچھے لے آتے جب خیال آتا کہ کہیں دشمن آگے سے نہ آ جائے تو اونٹنی آگے لے جاتے کہ اگر دشمن حملہ آور ہو جائے تو وار مجھ پر ہو نہ کہ آقا پر اور جب خیال آتا کہ کہیں دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو جائے تو اونٹنی پیچھے لے آتے کہ میں حملے کی زد میں آ جاوں اور آقا بچ جائیں ۔

اسی ہیجان کی کیفیت میں غار ثور تک پہنچ گئے وہاں تین دن کے قیام کے بعد مدینہ کی طرف رخت سفر باندھا ۔

مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور اسکے جتنے لوازمات تھےسب مکمل کر لئے سارے انتظامات مکمل کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دشمنان اسلام سے نمٹنے کیلیے جہاد و غزوات کی ابتداء کی تو صدیق اکبر رض اس سفر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نظر آتے رہے  ۔

اسلام کی سربلندی کیلیے اپنی جان و مال تک کو لٹا دینے کیلیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔ چنانچہ غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرامؓ کو مال جمع کرنیکا حکم دیا تو صحابہ کرام نے حسب استطاعت مال لا کر آپﷺ کے قدمو٘ں میں بچھانا شروع کر دیا کسی نے تین تین سو اونٹ سامان بھر کے دیا تو کسی نے اپنے گھر کا آدھا سامان آپ کے قدموں میں لا کر نچھاور کر دیا لیکن عائشہؓ کے ابا یہاں پر بھی سب سے آگے اور سب سے نمایاں نظر آئے کہ اپنے گھر کا سب سامان لا کر حضور کے قدموں میں نچھاور کر دیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ صدیق گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو تو فرمایا کی یا رسول اللہﷺ :اللہ اور اسکے رسولﷺ کے نام کیے علاوہ جو کچھ بھی تھا آپ کے قدموں میں بچھا دیا ہے ۔ اسی کو دیکھ کر کسی شاعر نے کہا تھا 

اصحابؓ پاک مصطفی نے حق کو کیا جگر دیا 

بہر قوم بے دھڑک سب نے مال و زر دیا

کسی نے ثلث لا دیا کسی نے نصف گھر دیا 

مگر عائشہؓ کے باپ نے دیا تو اس قدر دیا 

خداکے نام کے سوا جو کچھ بھی تھا لا کہ دھر دیا 

                                                                     جاری ہے

ازقلم: مولانا عتیق الرحمن ستی صاحب

مولانا عتیق الرحمن صاحب کو فیس بک پر جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]