محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

انسانیت کی خدمت


انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مددکے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے خدمت ِ انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائنات رنگ و بو کا حسن و جمال ہے ۔ 


وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت مال دار اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تو اس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے

شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدداُن کے وہ بھائی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو ۔


 👇مسلم شریف کی روایت ہے

’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جواس کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘‘

سبحان اللہ اس رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہر گز نہیں 


انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیواؤں اور یتیموں کی مدد ،مسافروں ، محتاجوں اور فقرا اور مساکین سے ہمدردی ،بیماروں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تنا ظرمیں ان سب سے بڑھ کر انسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے دوزخ کی آگ سے بچایا جا ئے اور رب کی رضا اورصراط مستقیم کی طرف ان کو دعوت دی جا ئے ۔ 

لیکن اس مضمون میں ہم صرف پہلی قسم کے متعلق ہی گزارشات ضبطِ تحریر میں لائیں گے۔


👇صحیح الجامع میں رسولﷺنے فرمایا:

لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔


اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔

یا ان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو ۔


میرے نزدیک کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کی سعی ایک ماہ مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اورجس نے غصہ بُجھایا اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کرلی اور جس نے غصہ پی لیا اگر اس نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور کردے گا

اللہ تعالیٰ اس کا دل اتنا بھر دیگا کہ وہ قیامت کے دن راضی ہو جائیگا ۔


اس حدیث میں کسی ضرور ت مند انسان کی حاجت کو پورا کرنے پر کتنے ہی انعامات کا ذکر کیا گیا ہے ۔


بے شک بد خُلقی اعمال کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو برباد کر دیتا ہے

جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا یہاں تک کہ وہ ضرورت پوری ہو جائے اللہ تعالیٰ اس دن اسے ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈ گمگا رہے ہو ںگے ۔


ایک دن مجلس میں  نبی رحمت  ﷺنے صحابہ کرام ؓسے سوالات کئے ۔آپﷺنے پوچھا آج کس نے جنازے میں شرکت کی ؟ ّسیدناابو بکرؓنے فرمایا میں نے ۔

آپ ﷺ نے فرمایا آج کس نے بھوکے کو کھاناکھلایا ؟ سیدناابو بکرؓ نے فرمایا میں نے ۔ 

آپﷺنے پھر سوال کیا آج کس نے اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھا؟ سیدناابو بکر ؓ نے فرمایا میں نے ۔ 

آپﷺنے ایک بارپھر پوچھا آج کس نے بیما ر کی عیادت کی؟ سیدناابوبکر  ؓ نے فرمایا میں نے ۔ 

نبی ﷺ نے فرمایا جس آدمی میں یہ 4 باتیں جمع ہو جائیں وہ جنتی ہے ۔


صحابہ کرام ؓ  نیکیوں کے اس قدر حریص تھے کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے تھے ۔ 

حضرت عمر ؓ  فرماتے ہیں ایک دن میں مد ینے کے مضافات میں ایک جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس میں تنہا ایک بڑھیا بستر پر پڑی نظرآئی اور جھونپڑی صاف ستھری اور ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی  ۔

    میں نے بڑھیا سے پوچھا: اماں آپ کے یہ کا م کون کرتا ہے ؟ عرض کیا ایک شخص فجر سے بھی پہلے آتا ہے اور یہ سارے کام کرکے چلا جاتا ہے۔ 

حضرت عمر ؓ کو تجسس ہواکہ وہ کون شخص ہے ۔ دوسرے دن صبح آئے تو وہ کام کرکے چلا گیا تھا ۔ پھر آئے تو  وہ گھر کی صفائی کر رہے تھے دیکھا تو ابوبکر ؓ تھے ۔ 


سید القوم خادم ھم ۔یہ تھے قوم کے حقیقی رہنمااور خادم ۔


سیدناابو بکر ؓ  کئی گھرانوں کی مستقل کفالت بھی کرتے تھے اور محلے میں کئی گھروں کی بکریوں کا دودھ بھی دھوتے تھے خلیفہ بنے تو ایک دن محلے سے گزرتے ہوئے ایک لڑکی نے دیکھا تو کہنے لگی ہائے 

آپ تو مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے ہیں۔ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دھوئے گا؟

آپؓ نے فرمایا مجھے تمہاری بکریوں کا دودھ دھونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (گویا کہ میںخلیفہ ہوتے ہوئے بھی یہ کام کر وںگا) ۔                

مومنین کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

    یتیم کی کفالت کرنے والے کو نبی ﷺ کی جنت کی رفاقت نصیب ہو گی ۔یتیموں کو دھتکارنااور مسکین کو کھانا نہ کھلانا مشرکین کا عمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں جا بجا اس کا ذکر آیا ہے ۔


👇ایک حدیث میں بڑے عجیب انداز میں بھوکے پیاسے اور بیمارکا ذکر آیا ہے۔

امام مسلم حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں 

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا 


اے آدم کے بیٹے میں بیمارہوا تھا تو تُونے میری عیادت نہیں کی بندہ کہے گا میرے اللہ تُو تو رب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا؟ اللہ فرمائے گا میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تُو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔


اے آدم کے بیٹے میں نے تجھے کھانے کو دیا تھا لیکن میں بھوکا تھا  تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ۔

بندہ کہے گا پرور دگار تُو تو رب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا ؟ 

اللہ فرمائے گا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تُو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُواسے کھانا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا ۔     


اے آدم کے بیٹے میں نے تجھے پانی دیا لیکن میں پیاسا تھا، تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا ۔بندہ کہے گا: تُو رب العالمین ہے میں کیسے تجھے پانی پلاتا ؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ پیاسا تھا، اگر تُواسے پانی پلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔


کتنے ہی حسین پیرائے میں خدمت خلق کے کام کی عظمت کا احساس دلایا گیا ہے تاکہ ہم بھی نیکی کے ان کاموں کی طرف راغب ہوں ۔یتیموں اور بیواؤں،فقراء اور مساکین سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبت ہے اور کن کن طریقوں سے اللہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔

دیکھئے جتنی عبادات اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں بالخصوص روزہ ،حج اورعمرہ اورشرعی قسم توڑنے کا کفارہ وغیرہ ۔ان عبادات میں کسی کمی یا کوتاہی کاازالہ اس جیسی کسی عبادت کے بجائے فقراء اورمساکین کی خدمت سے کیا جاتا ہے۔


بوڑھا شخص یا کوئی بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک روزے کے بدلے میں کچھ نفل پڑھتا یا قرآن کی تلاو ت کرتا جو خالص اللہ ہی کی عبادت ہے۔ 

اس کے کرنے کا حکم دیاجاتا لیکن ایسا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ نہیں رکھ سکتے ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاؤ۔


جماع کے ذریعے تم نے روزے جیسی عظیم عبادت کو نقصان پہنچایا تو اس کا ازالہ کسی غلام کی گردن چھڑاکر کرو یا60 مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ بغیر احرام کے میقات سے گزرنے والے کو ایک اضافی طواف کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا لیکن نہیں فرمایا :حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہے، اب اس کے عوض مکے کے فقراء اور مساکین کو بکرے یا دنبے کا گوشت کھلاؤ۔ 

قسم کا کفارہ 10 مساکین کو کپڑے پہنانا یا کھانا کھلانا یاایک غلام آزادکرانا علیٰ ھذا القیاس ۔


ضرورت مند اور مستحق کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے مستقل روزگار فراہم کرنے میں مدد دی جائے ۔ بھیگ مانگنے اور سوال کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے  اور  اس عمل کو نبی کریم ﷺنے ناپسند کیا ہے ۔ بد قسمتی سے آج مسلمان معاشروں  میں  لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کو پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے جس کی ہر سطح پر  حوصلہ شکنی ہونی چا ہئے  اور  حقیقی مستحقین کو ان کا حق بغیرطلب کئے ملنا چاہئے ۔


یہ کام اصل میں تو مسلمان حکومتوں کے کرنے کا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس طرف دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں ہے۔ انفرادی طور پر بھی ہمیں اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں میں بڑھ چڑھ کر ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی بڑے پیمانے پر خدمت خلق کے ادارے اور تنظیمیں قائم کر کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے ۔ ایدھی ویلفیئر اور الخدمت فاؤنڈیشن کے طرز پر چھوٹے پیمانے پر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔

     نبی ﷺ نبوت سے قبل معاہدہ حلف ا لفضول میں شریک ہوئے تھے ۔ ابن سعد اور ابن ھشام نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ مکے میں کمزور وں پر ظلم ہوتا تھا اور ان کے حقوق غصب کئے جاتے تھے ۔ قریش کے کچھ زعما جمع ہوئے اور ایک معاہدہ طے پایا جس کے ذریعے ظلم اور انسانی حقوق کی حق تلفی کا ازالہ مقصود تھا۔


نبی ﷺ اس معاہدے میں شریک ہوئے اور فرمایا :مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی قبول نہیں اور اسلام کے بعد بھی کسی ایسے معاہدے کے لئے مجھے دعوت دی جائے تو میں خوشی سے اس میں شریک ہوں گا ۔


خدمت خلق کا کام گناہوں کی بخشش اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ ایک شخص نبی ﷺکے پاس آیا اور عرض کیا میں ایک گناہ کر بیٹھا ہوں۔آپﷺ نے پوچھا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا تمہاری خالہ زندہ ہے ؟اس نے کہا ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا :جاؤ خالہ کی خدمت کرو اللہ تمہا رے گناہ بخش دے گا ‘۔


والدین کی خدمت تو بدرجہ اولیٰ جنت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اگر ہم والدین کی خدمت اوردیکھ بھال کریں تو جنت ملے گی ان کے دل دکھائیں اور ایذا دیں تو جہنم کی سزا ملے گی ۔         


حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کسی نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ 7 سال سے بیمار ہوں ہر طرح کا علاج کرایا کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ آپؒ نے فرمایا جاؤایسی جگہ تلاش کرو جہاں لوگ پانی کی تنگی میں مبتلا ہوں وہاں کنواں کھداؤ، مجھے امید ہے وہاں چشمے سے پانی جاری ہو اور تمہاری بیماری ٹھیک ہو جائے ۔ اس نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہو گیا۔


’’نبی ﷺنے فرمایا :

    صدقہ سے اپنے مریضوں کا علا ج کرو ــ۔‘‘


حضرت سعد ؓ نے نبیﷺسے عرض کیا :میری والدہ وفات پاچکی ہیں، ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کو فائدہ پہنچے گا ؟


آپﷺ نے فرمایا ہاں اور تم پانی کا بندوبست کرو (جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو وہاں کنواں بنا دو ) ‘‘۔


پاکستان میں تھر اور دیگر ریگستانی علا قوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔الحمدللہ الخدمت فا ؤنڈیشن وہاں بڑے پیمانے پر کنویں کھودکر لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اہل خیرحضرات اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور رب کی رضااور جنت کو حا صل کریں۔


مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے راستے سے اس درخت کو کاٹ دیا جولوگوں کو آنے جا نے میں تکلیف دیتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرمادی ۔


بیمار کی عیادت اور اس کے علاج معالجے کا انتظام بڑے اجر وثواب کاباعث ہے ۔امام ترمذی ؒنے روایت بیان کی ہے کہ جو کوئی صبح کے وقت کسی بیمارکی عیادت کو جاتا ہے تو شام تک70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اورشام کے وقت جاتا ہے تو صبح تک   70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور اسے جنت کا ایک باغ عطا کیا جاتاہے‘‘۔


👇صحیح مسلم کی روایت ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ’’جب کوئی مسلما ن کسی مسلمان کی مزاج پرسی کے لئے جا تا ہے تو وہ جنت کے با غ میں ہوتا ہے ۔ ‘‘

    اما م ترمذیؒ نے روایت بیان کی ہے:

     ’’جوکسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے (اسے تسلی دے)اسے اتناہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو ۔‘‘

    

نبی ﷺ کے پڑوس میں ایک یہودی بیمار تھا۔ آپﷺاس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔وہ عالم نزع میں تھا۔ آپﷺنے اسے کلمہ توحید پڑھنے کی تلقین کی اس نے قریب کھڑے باپ کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔باپ نے کہا: ابو قاسم ﷺکی بات مان لو۔ اسنے کلمہ پڑھ لیا اور اسکی روح پروازکر گئی ۔ آپﷺنے فرمایا:شکر ہے اس رب کا جس نے اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا ۔


خدمت انسانیت میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں ۔ ہاں مسلمان سے ہمدردی زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے ۔

     متفق علیہ روایت ہے :


’’جو کسی بیوہ یایتیم کے لئے سعی کرے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو بغیر کسی وقفے کے مسلسل نماز میں کھڑا ہو یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ نہ چھو ڑتا ہو۔ ‘‘

    ابو دائود کی روایت ہے:


’’ جو کسی انسان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے ـ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دورکرنے میں مدد دیتا ہے اللہ اسے قیامت کے دن بے چینی اور تکلیف سے نجات دے گا۔ ‘‘

     ترمذی شریف کی روایت ہے :


’’تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پررحم فرمائے گا ۔‘‘

     بخاری اور مسلم کی روایت ہے:

     ’’ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔‘‘


امام احمد اور امام ترمذی نے روایت بیان کی ہے :

 ’’رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہو ۔‘‘  


ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]