محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

ازقلم: ظہوراحمد بالاکوٹی


وہ رمضان المبارک کا دوسرا دن تھا افطاری کو بیس سے پچیس منٹ باقی تھے میری طبیعت کافی خراب تھی پھر اچانک مجھے الٹیاں شروع ہو گئ اور مجبور ہو کر روزہ توڑنا پڑا 

اگلی صبح سحری کے وقت مجھے کسی نے نہیں جگایا آٹھ بج کر بیس  منٹ تھے کہ والد محترم کی آواز کانوں میں گونجی

اٹھو اور گاۓ کے لیے مکئ کاٹ کے لے آؤ


میں نے آنکھیں بند کرنے کی بہت کوشش کی مگر والد محترم کھڑے رہے مجبور ہو کر چارپائ سے نیچھے اترنا پڑا ہاتھ منہ دھوۓ اور مکئ کاٹنے نکل پڑا میرے پیچھے والد محترم بھی آ رھے تھے

ابھی کھیت سے دس بیس قدم دور ہی تھا کہ اچانک زمین لرزنے لگی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو گیا بڑے بڑے پتھر میرے اوپر سے گزر رھے تھے

میں کلمہ کا ورد کرتے کرتے بھاگتا ہوا گھر کے قریب پونچھا والد محترم ہمشیرہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا ہمشیرہ نے بتایا کہ زلزلہ ھوا ہے پھر انھوں نے والدہ کا پوچھا کہ وہ کدھر ہیں ہمشیرہ نے بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں.

پھر ہم اپنے مکان کے پاس آۓ جو مکمل طور پہ گر چکا تھا

والدہ محترمہ رہائشی مکان اور بیٹھک کے درمیان موجود تھی.


(والد محترم کی یہ عادت ہمیشہ سے رہی تھی کہ وہ فجر کی نماز ادا کر کے ذکر و اذکار میں مشغول رہتے اشراق کی نماز پڑھ کے گھر آتے اور پھر دس بجے تک آرام فرماتے

گزشتہ دو دن بھی انھوں نے ایسا ہی کیا مگر اس دن نہ وہ خود ٹھرے اور نہ ہی مجھے ٹھرنے دیا رب کریم نے جس کی زندگی جتنی لکھ ہو موت قدم بہ قدم ٹل جاتی ہے)


ابھی ہم اپنے گرے ہوۓ مکان پہ ہی موجود تھے کہ چچی آئ اور بتایا کہ میرا نواسہ (جس کی عمر اس وقت ایک  سال تھی) وہ مکان کے نیچھے دبا ہوا ہے ہم وہاں گۓ تو دیکھا وہ پچھلی سائیڈ پہ چارپائ پہ کھیل رہا تھا اسی اثناء میں دوسرے چچا زاد نے آ کر بتایا کہ میرا بھائ(جن کو پیار سے لالہ کہتے تھے) فوت ہو چکا ہے  جب ہم وہاں گۓ تو دیکھا ان کی لاش بلکل سامنے ہے مگر اوپر بڑی بڑی لکڑیاں پڑی ہیں جن کو اٹھانا دو چار بندوں کے بس کی بات نہیں.

جیسے تیسے کر کے ان کے جسدخاکی کو نکالا پھر ادھر ادھر سے معلومات آنی شروع ہوئ تو یہی سمجھ آ رہی تھی کہ اس دنیا میں کوئ نہیں بچا.


خیر آھستہ آھستہ گاؤں کے سب لوگ ایک جگہ جمع ہونا شروع ہو گۓ اور سب مل کر شہداء کی لاشوں کو نکالنے لگے.

پھر مختلف رشتہ داروں کی شہادت کی خبریں ملنے لگی سب سے ذیادہ تکلیف دہ خبر یہ تھی کہ ہمارے قریبی عزیزوں میں سے ایک ہی خاندان کے تیرہ افراد ملبے تلے دب گۓ تھے

جن کی لاشوں کو نکالنے کے لیۓ وسائل ناکافی تھے.

اس دوران ہر دو چار منٹ بعد زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس ہو رہے تھے جن کے دوران یہی محسوس ہوتا کہ شاید کوئ اور ایسا جھٹکا لگے گا جس کی زد میں ہم بچے کچے بھی آ جائیں گے اور بس.....


تین بجے کے بعد اچانک آسمان پہ کالے بادل چھا گے اور پھراس زور سے ژالہ باری اور بارش شروع ہوئ کہ زندگی کی آس تقریبا ختم ہو گئ ہرشخص رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا.

وہ رات کھلے آسمان تلے بسر کی زخمی عورتیں،مرد اور بچے زندگی سے ذیادہ موت کی آرزو کر رہے تھے


اگلے دن سحری کے وقت کچھ لوگوں نے بغیر کچھ کھاۓ پیۓ روزہ رکھ لیا اور مجھ جیسے کم عمروں کو کھانے کے لیۓ صرف اخروٹ اور چھلی ہی میسر آ سکے

خدا خدا کر کے وہ دن بھی گزر گیا

اگلے دن ادھر ادھر تو آرمی کے ہیلی کاپٹر امدادی سامان پھینک گۓ مگر نسبتاً سطح سمندر کے قریب میرا گاؤں ان کی اونچی نظروں سے محفوظ رہا یوں سرخ چادریں لہرانے کے باوجود ہم امداد سے محروم رہے.

اس دن گرے مکانات میں سے شہداء کی لاشوں کے ساتھ ساتھ کچھ راشن بھی ہاتھ لگا یوں تیسرے دن بھوک مٹانے کا اک بہانہ ملا اور پیٹ بھر کے کھانا کھایا.

آج زلزلے کو چوتھا دن تھا اور میرا گاؤں میں آخری دن تھا صبح ہوتے ہی میں گاؤں کے کچھ لوگوں کے ساتھ نکل پڑا ابھی بمشکل پانچ سے سات کیلومیٹرکا فاصلہ ہی طے کیاتھا کہ میرا ان کے ساتھ چلنا 

ناممکن ہو گیا اگلے دس سے بارہ کیلومیٹر کا پیدل سفر طے کر کے بالاکوٹ شہر آیا تو شام عصرکے بعد کا وقت تھا

ہر شخص  اجنبی تھا میں کافی دیر ان لوگوں کی انتظار کرتا رہا جن کو میں نے آدھے راستے میں چھوڑ دیا تھا

وقت گزرتا گیا مگر قافلے کا کوئ شخص مجھے نہ مل سکا.

اب مغرب ہو چکی تھی اور میں (موجودہ تھانے) 

(اس سے کا مجھے معلوم نہیں تھانہ کہاں تھا)

کے باہر کھڑا رو رہا تھا کہ ایک سفید ریش بزرگ نے آ کر پوچھا بیٹا کیوں رو رہے ھو میں نے بتایا کہ ہری پور جانا ہے مگر نہ گاڑی ہے اور نہ پاس کرایہ انھوں نے کہا فکر نہ کرو ہم بھی وہاں جائیں گے ساتھ لے جائیں گے میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا وہاں اور بھی کافی لوگ موجود تھے ان لوگوں نے مجھے آٹھ سو روپے بھی دیۓ اور کھانے کے لیۓ آلو کے بنے چپس بھی..

(ان لوگوں کا تعلق سکندرپور ہری پور سے تھا)

رات کو کسی وقت ہری پور میں اتارا تو میں سیدھا بھائ کے کمرے میں گیا

(زلزلے سے دو سال قبل ہی میں سکول پڑھنے بھائ کے پاس چلا گیا تھا)

دو تین دن بعد باقی گھر والے بھی آ گۓ اور تب سے اب تک وہاں ہی رہ رہے ہیں.

والد محترم اور والدہ محترمہ کی وفات بھی وہاں ہی ہوئ جب کہ انھیں دفن یہاں گاؤں میں کیا جس گاؤں میں آج بیٹھ کر ماضی کو یاد کر رہا ہوں۔


پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔


مزید اچھی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]