محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

درد دل


ماضی میں کئ مرتبہ اس عنوان پر لکھ چکا ہوں، بہت سارے لوگوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور کئ لوگوں نے اس مسئلے کو صرف میری برابلم سمجھا، کسی بھی مسلے کو حل کرنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرنا اہم ہوتا ہے۔


ازقلم:            محمداشرف    29اگست2018


پسند کی شادی


ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پسند کو ناقابل معاف عمل سمجھا جاتا ہے، جو اس دور کی بدترین جہالت ہے، ہمارے معاشرے میں لڑکی کی پسند کے اظہار کو والدین اور بھائ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں، جس کے نتائج بہت خطرناک آتے ہیں۔


میں آپ کو دو واقعات بتاتا ہوں جن کی صداقت کا میں خود گواہ ہوں اور پروف بھی دے سکتا ہوں۔


میرے ایک جاننے والے کی مانسہرہ کے ایک گاؤں کی لڑکی سے فرینڈشپ بنی دوران تعلیم دونوں کا تعلق دینی مدارس سے تھا، ان کی دوستی بالآخر محبت میں بدلی ایک دوسرے کی فیملی اور گھر کے بارے میں بھی جانکاری ابھی نہیں ہوئ تھی کہ سنہ2005کا تباہ کن ذلزہ ہو گیا، جس کی وجہ سے دونوں بچھڑ گے، اور ایک دوسرے کے بارے میں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پا چکے۔


اس دوران ایک طویل عرصہ بیت گیا، لڑکا تو بھول گیا مگر لڑکی نے تلاش جاری رکھی، لڑکی کے گھر کئ رشتے آۓ مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس دوران لڑکے کو اپنے رشتے داروں میں ایک لڑکی سے پیار ہو گیا، اور اس لڑکی کے والدین رشتہ دینے پر بھی آمادہ ہو گے اور ان دونوں کی انگیجمنٹ کر دی گئ۔

غالباً سنہ2013میں اس لڑکی نے تلاش کرتے کرتے بالآخر اس لڑکے کا فون نمبر حاصل کر لیا۔

اس کے بعد ملاقاتیں بھی ہوئیں لڑکے نے اپنی منگنی کی کہانی بھی بتائ، جس پر لڑکی نے اسے یہ مشورہ دیا کہ آپ دو شادیاں کر لیں۔ جب وہ لڑکا اپنی منگیتر کو یہ کہانی سناتا ہے تو وہ بھی کافی حیران ہوتی ہے اور لڑکے کو اختیار دے دیتی ہے کہ آپ کی مرضی اگر آپ اس سے بھی شادی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئ اعتراض نہیں۔


اس کے بعد خوشیوں کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے، اور لڑکی کے والدین اس کی شادی کے لیے کئ رشتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں کر لو لیکن لڑکی انکار کر جاتی ہے۔

مختصراً:  بالآخر لڑکی اپنی پسند کا اظہار اپنی والدہ سے کرتی ہے جس کے بعد یہ بات پورے گھر میں اوپن ہو جاتی ہے۔


اور لڑکی کے والدین لڑکی کی خواہش کو مسترد کر دیتے ہیں اور جلال میں آ کر محلے کے ایک لڑکے سے رشتہ طے کر دیتے ہیں، اور اس لڑکے سے نکاح بھی کر دیا جاتا ہے لیکن رخصتی ابھی نہیں ہوتی۔

نکاح کے بعد والدین مطمئن ہو گے کہ اب ہم نے پھنسا دیا اب کیا کر لے گی۔


نکاح کے ٹھیک دوسرے روز صبح لگ بھگ نو بجے کے قریب جب لڑکی کی والدہ صحن میں بیٹھی تھی لڑکی آئ اور  ٹیبل اٹھا کر اپنے روم میں لے کر گئ والدہ کے پوچھنے پر بتایا کہ میں روم کی لائٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹیبل لے کر جا رہی ہوں۔

لڑکی نے روم کا دروازہ بند کر لیا۔ 


کافی دیر گزر گئ جب والدہ نے اٹھ کر دروازہ کھٹکایا تو کوئ جواب اندر سے نہ آیا، اس کے بعد بھابیاں اور گھر کے دیگر لوگوں کو بھی خدشہ ہوا تو دروازہ توڑ کر اندر گے،

اندر کا ماحول قیامت سے کم نہ تھا، لڑکی نے پنکھے سے خود کو لٹکا کر اور اپنے سینے میں چھری گھونپ کر زبرستی کے نکاح سے ہمیشہ کے لیے طلاق لے لی تھی، اور لوگوں کے سامنے اپنے والدین کی عزت پر آنچ بھی نہیں آنے دی۔


ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتاؤ اس لڑکی کا قاتل کون ہے؟


2005سے2013تک جس لڑکی نے اپنی محبت کو پانے کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی کوشش کو کم نہ کیا۔ اپنی محبت کو تلاش کرتی رہی اور تلاش کر کے چھوڑا، تو جناب عالی آج وہ کورٹ میرج کے ذریعے اپنی اس محبت کو پا بھی سکتی تھی مگر اس نے اپنے والدین سے بھی وفا کی، کاش اس وقت اس کے والدین بھی اپنی آنکھوں سے انا کی پٹی کو ہٹا کر فیصلہ کرتے۔


اس لڑکی کی وفات کے بعد کئ روز تک اس لڑکے کے آنسو خشک نہیں ہوۓ تھےـ گزشتہ سال جب میں نے لڑکے سے اس ٹاپک پر جان بوجھ کر بات کی تو اس کی زباں سے کوئ الفاظ نمودار ہونے کے بجاۓ آنسوؤں کے قطرے ٹپکنے لگے۔


دوسرا واقعہ جو چند ماہ پہلے کا ہے


بالاکوٹ کے ایک گاؤں کے لڑکے نے کورٹ میرج کیا؛؛؛؛

لڑکی اور لڑکے کے درمیان عرصہ دراز سے تعلقات تھے دونوں شادی کے لیے رضامند تھے، لڑکے نے اپنے والدین کو کئ مرتبہ لڑکی کے گھر بھیجا رشتے کے پیغام کے لیے جواب میں ہمیشہ انکار ہوتا ہے، چند ماہ پہلے انہوں نے کورٹ میرج کر لیا، اس کےبعد اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ جب لڑکی اپنی پسند پر ڈٹی رہی ان کی بات نہ مانی تو لڑکی پر تشدد کیا گیا، 

میڈیکل رپورٹ کے مطابق لڑکی کے بعض اعضاء تشدد کی وجہ سے ٹوٹے ہوۓ ہیں۔

اب انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ جو لوگ کورٹ میرج جیسا ریسک لے سکتے ہیں وہ ذہنی طور پر مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انجام کیا ہو گا اس کی فکر ان کو نہیں ہوتی۔


اگر لڑکی کے بار بار اسرار پر ان کی شادی کر دی جاتی تو یقیناً والدین کی عزت محفوظ رہ سکتی تھی،،،مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ پاکستانی قانون کے مطابق ریاست پاکستان شہری کو کورٹ میرج کی اجازت دیتی ہے۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ اس عمل کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر کورٹ میرج ایک لیگل طریقہ کار ہے جسے کسی صورت غلط نہیں کہا جا سکتا۔

اور ہمارے معاشرے میں شادی پر آنے والے اخراجات کو دیکھا جاۓ تو بھی کورٹ میرج انتہائ سستی شادی ہے۔


اب آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف


میں نے اوپر ذکر کیا کہ ہر مسلے کو حل کرنے کے لیے درمیانی راستہ یعنی مفاہمت ضروری ہے۔


اگر آپ کی لڑکی لڑکا اپنی پسند کا اظہار کریں تو انہیں بجاۓ برا بھلا کہنے کے اس مسلے پر غور و فکر کریں چونکہ ان کا وہ  جائز مطالبہ ہے کہ ہم فلاں سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ خواہش تو آپ کی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں کی شادی ہو جاۓ۔ تو پھر ان کی مرضی کے مطابق ہی کیوں نہیں کر دیتے۔


یاد رکھو جب آپ ان کی مرضی کے خلاف جاؤ گے تو پھر ذہنی طور پر تیار رہنا کہ کبھی بھی آپ کے کانوں میں یہ گونج سنائ دے سکتی ہے کہ آپ کی لڑکی لڑکے نے کورٹ میرج کر لی۔

یا خود کشی کر لی؛؛؛؛؛؛؛؛


اگر آپ کورٹ میرج کے رواج کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے بچوں کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا ہو گا۔ بصورت دیگر آپ کی سوچ کے بر عکس سب کچھ جاۓ گا۔ جب پانی سر تک پہنچ جاۓ تو تیرنا ناممکن اور ڈوبنا ممکن ہو جاتا ہے۔


حکومت پاکستان سے ہماری درخواست ہے، شادی کو سستا اور آسان بنایا جاۓ، کورٹ میرج کرنے والے جوڑوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاۓ۔ ان کو دھکیاں دینے والوں کو سخت سزا دی جاۓ۔ اس کے لیے جلد از جلد نئ قانون سازی کر کے عمل درآمد کو یقینی بنایا جاۓ۔


لکھنا تو بہت کچھ تھا، مگر تحریر لمبی ہو جاۓ گی۔آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔Muhammad Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]