محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

صفاتِ ایمان

١. اللّٰہ تعالٰی پر ایمان لانا 

اللّٰہ یہ اس ذات کا اسم ذات ہے جو واجب الوجود ہے۔ یعنی جو خودبخود ہر وقت ہر جگہ موجود ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا اور اُس کا عدم یعنی کسی وقت کسی جگہ نہ ہونا محال ہے، اللّٰہ تعالٰی کے سوا اور کوئی چیز واجب الوجوب نہیں، اس اسمِ ذاتی کے علاوہ اُس ذات کے بہت سے صفاتی نام ہیں مثلاً خالق،  رازق،  حی و قیوم وغیرہ جو لاتعداد ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ننانوے یعنی ایک کم سو نام آئے ہیں اور بعض دوسری احادیث میں ان کے علاوہ اور نام بھی آ ئے ہیں۔ قرآن و حدیث میں آئے ہوئے ناموں کے علاوہ اپنے بنائے ہوئے عقلی و عرفی ناموں سے اللّٰہ کو پکارنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ صحیح ناموں کے مطابق ہوں۔ مثلاً اللّٰہ تعالٰی کو عالم کہیں گے،  لیکن عاقل کہنا جائز نہیں،  اللّٰہ تعالٰی کے اسمائ و صفات اللّٰہ تعالٰی کی ذات مقدس سے اس طرح پر متعلق ہیں کہ نہ عینِ ذات ہیں اور نہ غیر ذات،  اسی لئے اللّٰہ تعالٰی کی صفات یعنی علم و قدرت وغیرہ کو اللّٰہ نہیں کہہ سکتےاور نہ اس کا غیر ہی کہہ سکتے ہیں،  اللّٰہ تعالٰی کی صفات کو صفاتِ ذاتی یا صفاتِ کمالیہ کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں

١. وحدت یعنی اللّٰہ تعالٰی ایک ہے۔اس کی ذات و صفات میں اس کا کوئی شریک۔ نہیں اور وہی عبادت کے لائق ہے،  اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں 

٢. قِدَم یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ،  جو ہمیشہ سے ہو اس کو ازلی کہتے ہیں اور جو ہمیشہ رہے اس کو ابدی کہتےہیں،  پس اللّٰہ تعالٰی ازلی ۔بھی ہے اور ابدی بھی اور قدیم ہونے کے یہی معنی ہیں ۔ 

٣. حیوٰة ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا،  وہ حی و قیوم ہے 

٤. قدرت کائنات کے پیدا کرنے اور قائم رکھنے پھر فنا کرنے اور پھر موجود ۔ کرنے اور ہر چیز پر قادر ہے 

٥. علم کوئی چیز چھوٹی ہو یا بڑی اس کے علم سے باہر اور اس سے پوشیدہ نہیں،  اور وہ اس کو موجود ہونےسے پہلےاور مٹ جانے کے بعد بھی جانتا ہے،  ۔وہ ہر بات کو خوب اچھی طرح جانتا ہے 

٦. ارادہ اللّٰہ تعالٰی جس چیز کو چاہتا ہے اپنے اختیار و ارادہ سے پیدا کرتا اور مٹاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادہ اور اختیار سے باہر نہیں اور وہ کسی کام میں مجبور نہیں،  جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس کو روک ٹوک کرنے ۔والا نہیں 

٧. سمع و 

٨. بصر وہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے،  ہلکی سے ہلکی آواز کو سنتا اورچھوٹی سے چھوٹی چیز کو دیکھتا ہے،  نزدیک و دور اندھیرے اور اجالے ۔کا کوئی فرق نہیں 

٩. کلام یعنی بات کرنا،  یہ صفت بھی اللّٰہ تعالٰی کے لئے ثابت ہے،  اس کا کلام آواز سے پاک ہے اور وہ اس کے لئے زبان وغیرہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔ اس نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے اپنا کلام اپنے بندوں کو پہنچایا ہے،  تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اس کا کلام ہیں۔ 

١٠. خلق و تکوین یعنی پیدا کرنا اور وجود میں لانا، اسی نےزمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے، فرشتے، آدمی، جن، غرض کہ تمام کائنات کو پیدا کیا۔ تمام کائنات پہلے سے بلکل ناپید تھی، پھر اللّٰہ تعالٰی کے پیدا کرنے سے موجود ہوئی اور وہی تمام کائنات کا مالک ہےان مذکورہ صفات کو صفاتِ ثابتہ یا صفاتِ ثبوتیہ کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی صفات ہیں۔ مثلاً مارنا، زندہ کرنا، عزت دینا، ذلت دینا، رزق دینا وغیرہ جو سب ازلی و ابدی و قدیم ہیں، ان میں کمی و بیشی و تغیر وتبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس کی تمام صفات بے کیف اور ہمیشہ رہنے والی ہیں، وہ رحمان اور رحیم مالک الملک ہے سب کا بادشاہ ہے، اپنے بندوں کو آفتوں سے بچاتا ہے، عزت و بزرگی والا ہے، گناہوں کو بخشنے والا، زبردست ہے، بہت دینے والا ہے، تمام مخلوق کو روزی دیتا ہے، جس کی چاہے روزی زیادہ کرے اور جس کو چاہے روزی تنگ کر دے، جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، جس کو چاہے پست کرے اورجس کو چاہے بلند کرے، انصاف اور تحمل اور برداشت والا، خدمت وعبادت کی قدر کرنے والا، دعا قبول کرنے والا ہے، سب پرحاکم ہے اس پر کوئی حاکم نہیں، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، سب کےکام بنانے والا ہے، وہی جِلاتا اور مارتا ہے، توبہ قبول کرنے والا، ہدایت دینےوالا، جو سزا کے قابل ہیں ان کو سزا دینے والا ہے، اس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا اور تمام عالم کی حفاظت سے نہیں تھکتا، تمام ناقص صفتیں اس کی بارگاہ سے دور ہیں، وہ سب عیبوں سے پاک ہے مخلوق کی صفتوں سے بری ہے۔ وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ، اور نہ اس کا باپ ماں ہے اورنہ بیٹا بیٹی ہے، وہ بہن بھائی بیوی رشتہ داروں وغیرہ تمام تعلقات سے پاک ہے۔ زمان و مکان، اطراف و جہات، طول و عرض، جسم و جوہر، شکل و صورت، رنگ و بو، موت و ہلاکت غرض کہ ہر عیب و حدوث سے پاک و بری ہے۔ قرآن مجید اورحدیثوں میں بعض جگہ جو اللّٰہ تعالٰی کے لے ایسی باتوں کی خبر دی گئی ہے ان کی حقیقت اللّٰہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے، ان کے معنی اللّٰہ تعالٰی کے حوالہ کئے جائیں، وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں وہ بے مثل ہے کوئی چیز اس کے مثل و مشابہ نہیں، تمام کمالات اُس ۔کو حاصل ہیں۔


فرشتوں پر ایمان لانا 


فرشتوں پر ایمان لانے سے مراد یہ ماننا ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالٰی کی ایک مخلوق ہیں، وہ سب نور سے پیدا ہوئے ہیں، دن رات عبادتِ الہی میں مشغول رہتے ہیں، ہماری نظروں سے غائب ہیں، وہ نہ مرد ہیں نہ عورت، رشتہ ناتے کرنے اور کھانے پینے کے محتاج نہیں، تمام فرشتے معصوم ہیں اللّٰہ کی نافرمانی اور گناہ نہیں کرتے- جن کاموں پر اللّٰہ تعالٰی نے انہیں مقرر فرما دیا ہے انہی میں لگے رہتے ہیں اور تمام کام و انتظام اللّٰہ تعالٰی کے حکم کے موافق پورا کرتے ہیں۔وہ بے شمار ہیں ان کی گنتی اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان میں سے چار فرشتے مقرب اور مشہور ہیں۔ 

١. حضرت جبرائل علیہم السلام ۔جو اللّٰہ تعالٰی کی کتابیں اور احکام و پیغام پیغمبروں کے پاس لاتے تھے بعض مرتبہ انبیاء علیہم السلام کی مدد کرنے اور اللّٰہ و رسول کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھی بھیجے گئے بعض مرتبہ اللّٰہ -تعالٰی کے نافرمان بندوں پر عذاب بھی ان کے ذریعے سے بھیجا گیا 

٢. حضرت میکائل علیہم السلام ۔جو بارش وغیرہ کا انتظام کرنے اور مخلوق کو روزی پہچانے کے کام پر مقرر ہیں اور بےشمار فرشتہ ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ بعض بادلوں کے انتظام پر مقرر ہیں، بعض ہوائوں کے انتظام پر مامور ہیں اور بعض دریائوں اور تالابوں اور نہروں پر مقرر ہیں اور ان تمام چیزوں کا انتظام اللّٰہ تعالٰی کے حکم کے مطابق کرتے ہیں۔ 

٣. حضرت اسرافیل علیہم السلام ۔جو قیامت میں صور پھونکیں گے 

٤. حضرت عزرائیل علیہم السلام ۔جو مخلوق کی روحیں قبض کرنے یعنی جان نکالنے پرمقررہیں، ان کوملک الموت بھی کہتےہیں، ان کی ماتحتی میں بھی بےشمار فرشتے کام کرتے ہیں، نیک بندوں کی جان نکالنے والے فرشتے علیحدہ اور بدکار آدمیوں کی جان نکالنے والے علیحدہ ہیں، 


یہ چاروں فرشتے باقی سب فرشتوں سے افضل ہیں ان کے علاوہ اور فرشتے بھی ہیں جو آپس میں کم زیادہ مرتبہ رکھتے ہیں، یعنی کوئی زیادہ مقرب ہے کوئی کم۔ 

ان میں سے مشہور فرشتے یہ ہیں 

کراماًکاتبین ۔ حفظہ ۔ منکر نکیر۔ مجالس ذکر تلاوت و دیگر اعمال خیر میں حاضر ہونے والے فرشتے۔ رضوان یعنی داروغئہ جنّت اور ان کے ماتحت فرشتے مالک یعنی داروغئہ جہنم ۔اللّٰہ تعالٰی کا عرش اٹھانے والے فرشتے۔ ہر وقت اللّٰہ تعالٰی کی یاد و عبادت و تسبیح و تحمید و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہنے والے فرشتے، سب فرشتے معصوم ہیں، ان میں سے بعض دو پر رکھتے ہیں بعض تین اور بعض چار پر بھی رکھتے ہیں اور بعض بہت زیادہ، ان پروں کی حقیقت اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہےیہ سب باتیں قرآن مجید اور صحیح حدیثوں میں مذکور ہیں ان میں شک کرنا یا ان کی توہین و دشمنی کفروبال ہے-


. اللّٰہ تعالٰی کی کتابوں پر ایمان لانا


اللّٰہ تعالٰی کی کتابوں سے مراد وہ صحیفے( چھوٹی کتابیں) اور کتابیں ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے اپنے نبیوں پر نازل فرمائیں ہیں ۔یہ صحیفے اور کتابیں بہت سی ہیں جن کی گنتی یقینی طور پر معلوم نہیں۔ان میں سے یہ چار کتابیں مشہور ہیں ۔ 

١. توریت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی گئی ۔ 

٢. زبور جو حضرت داوئدعلیہ السلام پر سُریانی زبان میں نازل کی گئی ۔ 

٣. انجیل جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی گئی ۔ 

٤. قرآن مجید جو ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر عربی زبان میں نازل کی گئی ۔ 


ان چار کتابوں کے علاوہ کچھ صحیفے( چھوٹی کتابیں) حضرت آدم علیہ السلام پر اور کچھ حضرت شیث علیہ السلام پر اور کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے۔ان کے علاوہ کچھ اور بھی صحیفے ہیں جو بعض دوسرے پیغمبروں پر نازل ہوئے۔ یہ سب کچھ قرآن مجید سے ثابت ہے اور ان کو نہ ماننے والا شخص کافر ہے۔لیکن قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ موجودہ توریت و زبور و انجیل جو یہودیوں اور عیسٰائیوں کے پاس ہیں اصلی نہیں ہیں ۔بلکہ ان لوگوں نےاصل کتابوں کو ردوبدل کر دیا ہے اس لئے ان کے متعلق یہ اعتقاد نہ رکھنا چاہئے کہ یہ اصلی آسمانی کتابیں ہیں بلکہ یہ اعتقاد رکھے کہ یہ اصلی نہیں ہیں اور ان ناموں کی کتابیں اُن انبیاء کرام پر نازل ہوئی تھیں۔قرآن مجید کے نازل ہونے سے وہ کتابیں اور ان کی شریعت منسوخ ہو گئی اور قرآن مجید سب سے آخری کتاب ہےاس کے احکام قیامت تک جاری رہیں گے۔یہ ہر قسم کے ردوبدل(تحریف) سے محفوظ ہےاور قیامت تک محفوظ رہے گی۔آسمانی کتابوں میں سب سے افضل قرآن مجید ہے یعنی اس میں ثواب اور اس کا فائدہ مند ہونا سب سے زیادہ ثابت ہےاس کی چند فضیلتیں یہ ہیں- 

١. اس کا ایک ایک حرف اورایک ایک لفظ حتیٰ کہ زبر زیر پیش یا شوشہ تک ہر قسم کی کمی بیشی سے قیامت تک محفوظ ہے۔ 

٢. اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورة کے مثل بھی کوئی نہیں بنا سکتا۔ 

٣. اس نے پہلی سب کتابوں اور شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کر دئے ہیں- 

٤. سب کتابیں اپنے اپنے وقت میں ایک ہی دفعہ نازل ہوئی ہیں لیکن قرآن مجید کو دو فضیلتیں حاصل ہیں۔اول یہ کہ ایک ہی دفعہ میں ماہ رمضان المبارک کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا، پھر وھاں سے تیئس برس تک ضرورت کے وقت تھورا تھورا نازل ہوتا رہا اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں میں اترتا گیا۔یہ سب حکمت الٰہی پر مبنی تھا۔ 

٥. اس کے احکام ایسے معتدل ہیں کہ قیامت تک ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے مناسب ہیں۔ 

٦. حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک تواتر کے ساتھ نقل ہوتا چلا آ رہا ہے جو اس کے یقینی و قطعی ہونے اور تحریف وتبدیل سے محفوظ ہونے کی بین دلیل ہے ۔ 

٧. قرآن مجید ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں صدر اسلام سے آج تک محفوظ چلا آرہا ہے اور انشائ اللّٰہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں کو کسی وقت اس میں کمی بیشی کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور نہ انشائ اللّٰہ قیامت تک مل سکے گا ۔




٤. رسولوں پر ایمان لانا


رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہچانےکے لئے ان ہی میں سے کچھ بندوں کو چن لیا ہے۔جن کو نبی اور رسول کہتے ہیں۔ نبی اور رسول اللّٰہ تعالٰی کے بندے اور انسان ہوتے ہیں وہ سچے ہوتے ہیں، کبھی جھوٹ نہیں بولتے، ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔اللّٰہ تعالٰی کے احکام پوری طرح سے پہچا دیتے ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کرتے اور نہ کسی پیغام کو چھپاتے ہیں۔ 

رسول اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں خواہ اسے نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو، پس ہر رسول نبی ہےاور ہر نبی رسول نہیں ہے۔ ( بعض علما نے نبی اور رسول کو ایک ہی معنی میں لیا ہے) 

نبوت اور رسالت اپنے کسب و کوشش سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس کواللّٰہ تعالٰی بنائے وہی بنتا ہے۔پس یہ مرتبہ اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ سب نبی مرد ہوئے ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہوئی دنیا میں بہت سے رسول اور نبی آئے بعض روایتوں میں ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار آئی ہے اور بعض میں ایک لاکھ چونتیس ہزار اور بعض میں دو لاکھ چوبیس ہزار، یہ تعداد قطعی نہیں ہے،غالباً کثرت کے بیان کے لئے ہے، ان کی صحیح تعداد اللّٰہ تعالٰی ہی جانتا ہے ہمیں اور آپ کو اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللّٰہ تعالٰی نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم اُن سب کو برحق اور رسول اور نبی مانتے ہیں ۔ ان میں تین سو تیرہ رسول ہیں - 

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ الاسلام ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں، یعنی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی ہے آپ قیامت تک تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی قسم کا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی بھی قسم کی پیغمبری کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کافرودجال ہے ۔ 

حضرت آدم علیہ الاسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے درمیان میں جو پیغمبر آئے ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی قران مجید و احادیث میں آئے ہیں ۔ ان میں سے مشہور نام یہ ہیں حضرت نوح، حضرت شیث، حضرت ابرہیم، حضرت اسحٰق، حضرت اسمٰعیل، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت دائود، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسٰی، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت یحیٰی، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت یونس، حضرت لوط، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت عیسٰی علٰی نبینّا و علیہم الصلوت واسلام ۔رسولوں پیغمبروں میں بعض کا مرتبعہ بعض سے بڑا ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل اور بزرگ ہیں۔اللّٰہ تعالٰی کے تو آپ بھی بندے اور فرمانبردارہیں اللّٰہ تعالٰی کے بعد آپ کا مرتبہ سب سے بڑھا ہوا ہے- 

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر



آخرت پر ایمان


“یوم آخرت ” سے مراد روز قیامت ہے۔اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب و اور جزا کے لیے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔اس دن کا نام “یوم آخرت” اس لیے ہے کہ اس کے بعد کوئی دوسرا دن نہ ہو،کیونکہ تمام اہل جنت اور جہنم اپنے اپنے ٹھکانوں میں قرار پا چکے ہوں گے، اس دن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک ہے، جس کے بغیر کسی بھی بندہ کا ایمان قابلِ قبول نہیں ہے۔

یہاں کلک کرکے ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں


پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]