محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


اسم سے وجود تک کاسفر 

ہر اسم با مسمٰہ ہے۔ ہر لفظ ایک وجود رکھتا ہے"۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بطور مثال ایک لفظ بیان کیجے تاکہ اس جملہ کو پرکھا جاسکتے۔ مثلاََ کوئی بھی ایک لفظ جو بھی آپ  کے آس پاس چیزیں ہیں ان میں کسی بھی ایک چیز کا نام بیان کریں۔

-

مثال کے طور پر: گل دستہ، موبائل، کرسی، پرس، بوتل ۔۔۔ یہ سب اسم ہیں جس کا جود موجود ہے۔ ہر اسم با مسمہ ہے۔ ہم وجود کو اسم دیتے ہیں نہ کہ اسم کو وجود دیتے ہیں۔

-

ہوا وجود ہے جس کو آپ نے اسم دیا۔۔۔ ہوا اپنا وجود رکھتا ہے ۔۔۔ جس کو آپ ہوا کہتے ہو۔ وجود ہر وہ شے ہے جس کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ ہر شے کا ایک وجود ہوتا ہے۔ اور ہر وجود کا ایک نام موجود ہوتا ہے۔

-

آپ نے ہوا کو لہروں کی صورت میں مشاہدہ کیا۔ محسوس کیا۔ اور پھر اس کا نام رکھ دیا۔ پانی ۔۔۔۔۔ محض لفظ نہیں ایک حقیقی وجود کا نمائندہ ہے۔ شراب لفظ ہے جس کا وجود بھی پایا جاتا ہے۔ آپ کوئی بھی لفظ استعمال کریں اس کے وجود کا ہونا لازم ہے۔ ہر شے کا ایک وجود ہے اور ہر وجود کا ایک اسم ہے۔

-

ہر لفظ کا وجود ہوتا ہے۔ ہم وجود کا نام رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کسی شے کا وجود نہ ہو اور اس کا نام موجود ہو۔ ہر اسم کا وجود ہوتا ہے۔ ہر کردار کا وجود ہوتا ہے۔ جو ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔ آپ نے کتاب میں ایک لفظ پڑھا : گلاب ۔۔۔۔ یہ محض لفظ ہے مگر کسی وجود کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ آپ لفظ پر نہیں رکھتے اس کے وجود کو حاصل کرتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں۔ اس بات کو سب سے پہلے ذہن نشین کرلیں کہ :

-

ہر اسم کا "وجود" ہوتا ہے۔

-

ہر اسم کا وجود موجود ہے۔ ہر شے من و عن موجود ہے۔ جب حال میں ہر کردار موجود ہے تو پھر ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جو پہلے ہوا کرتا تھا وہ اب بھی ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔ آپ بازار گئے اور ایک کتاب سیر و سیاحت کی ایک بہترین کتاب مطالعہ کے لیے گھر لائے جس کا نام "مری کی سیر" ہے۔

-

آپ نے رات بھر اس کا مطالعہ کیا۔ اور پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ کہ مری پاکستان میں واقع ہے۔ یہ بہت ٹھڈہ علاقہ ہے۔ خوبصورت وادیوں اور خوش کن مناظر ہیں۔ کتاب پڑھ کر آپ کتاب کو اپرے ہٹا دو گے جو کچھ کتاب میں پڑھا ہے اس کے وجود کو دیکھنے کی آرزو پیدا ہو جائے گی اور سالانہ چھٹیوں میں آپ پہلی ہی فرصت میں مری پہنچ جائیں گے۔

-

یہ تو نہیں کہ آپ نے مری کی سیر نامی کتاب پڑھی اور اسے بار بار پڑھتے رہو اور خوش ہوتے رہو کہ مری تو بہت خوبصورت ہے۔ حسین ہے۔ جبکہ کتاب میں جو لکھا ہے اس کا مشاہدہ بھی کر آئیں واقعی میں مری اتنا خوبصورت ہے۔

-

اداکاری

ــــــــــــ

آپ ایک فلم دیکھتے ہیں: جس میں ییرو چور کا کردار ادا کرتا ہے۔ چور کی ماں بھی موجود ہوتی ہے۔ بہن بھائی، چاچا، ماما، تایا، دوست و احباب سب موجود ہوتے ہیں۔ چور کی ایک محبوبہ بھی ہوتی ہے۔ چور کا استاد بھی موجود ہوتا ہے۔

-

جس طرح فلم میں مختلف کردار اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ بلکل اسی طرح آپ کی زندگی بھی ایک کردار ہے۔ حال کے سٹیج پر آپ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا وہ وہ فلم ہے اور یہ حقیقت ہے۔

-

کائنات روشن و زندہ کتاب:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

بابا جان کہتے ہیں: حال کھلی کتاب ہے۔ زندہ کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرو۔ کتاب میں ہوا ۔۔۔ کا صرف لفظ موجود ہے مگر اس زندہ کتاب میں ہوا کا وجود بھی موجود ہے یہ چلتی ہے، لہراتی ہے۔۔ کاغذ کی کتاب میں پھول محض لفظ ہے مگر اس زندہ کتاب میں پھول حقیقت میں وجود رکھتا ہے۔ اور خوشبو بھی دیتا ہے ہوا کو معطر کرتا ہے۔

-

کتاب میں موجود بکری اسم ہے مگر اس زندہ کتاب میں بکری "میں میں بھی کرتی ہے۔ کھاتی بھی ہے۔ چلتی بھی ہے۔ یہاں درخت کے پتے ہواں سے ہلتے ہیں۔ پانی بہتا ہے۔ کتاب میں موجود سورج اسم ہے مگر اس زندہ کتاب میں سورج طلوع بھی ہوتا ہے اور غروب بھی ہوتا ہے روشنی بھی دیتا ہے۔ حرارت بھی۔ فصلوں کو بھی پکاتا ہے۔ اس میں سب اورنجل ہے۔ ہم اس وقت اس کائنات میں موجود ہیں جو روشن اور واضح کھلی کتاب ہے۔۔ جو کچھ اس میں موجود ہے اس کا خاکہ ہم کاغذ گتے کی بنی کتاب میں اتار دیتے ہیں۔

-

آپ نے مری کا سفر کیا ۔۔۔ تو مری کا خاکہ کتاب میں اتار دیا۔ مری کی سیر نامی کتاب مری نہیں بلکہ ایک نقشہ ہے ایک خاکہ ہے۔ بلکل اسی طرح دین بھی ایک سفر ہے۔ قرآن اسی سفر کی ترجمانی کرتی ہے۔ آپ کتاب کو صرف پرھتے ہیں اسے اپلائی بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی جگہ کی تعمیر کے لیے سب سے پہلے ایک نقشہ بنایا جاتا ہے کہ اس جگہ کی تعمیر اس نقشے کے مطابق ہوگی۔

-

بلکل اسی طرح قرآن عرفان خودی کی کتاب ہے۔ یہ ایک نقشہ ہے۔ ایک خاکہ ہے جس کے مطابق آپ نے اپنی خودی کی تعمیر کرنی ہے۔ کوئی بھی کتاب پڑھ کر ہم اس کے وجود کو تلاش کرتے ہیں بلکل اسی طرح قرآن کو صرف پڑھنا نہیں بلکہ اس کے وجود کو تلاش کرنا ہے اس روشن زندہ و جاوید کتاب میں۔

-

مرشد کی تلاش:

ـــــــــــــــــــــــ

ایک دوست نے کہا اگر داتا صاحب کی کتاب کشف المحجوب کوئی تین دفعہ پڑھے تو اسے مرشد مل جائے گا، ہم نے کہا جب ایک کتاب پہلے سے موجود ہے تو پھر دوسری یا تیسری کتاب پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں نا براہ راست عرفان خودی کی اورجنل کتاب پڑھیں۔

آپ قرآن اٹھائیں  ۔۔۔۔ اسے مکمل پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ صرف پہلا صفحہ کھول دیں ۔۔۔۔ سب سے پہلی سورت ۔۔۔ سورت فاتحہ ہے۔ سورت فاتحہ : آپ پڑھ رہے ہیں۔ انعمت علیھم

---

بھیجا کرو نہ کہ پڑھا کرو:

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سورت فاتحہ میں آپ مدد و استعانت مانگ رہے ہو کہ مجھے بھی انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلا جنہوں نے اپنی صراط کو مستقیم کر لیا ہے۔ ایک ہے پڑھنا اور ایک ہے کرنا ۔ حکم کرنے کا ہے پڑھنے کا نہیں۔ ایک ہوتا ہے سلام بھیجنا اور ایک ہوتا ہے سلام پڑھنا۔ سلام علیکم آپ پڑھتے ہو یا سلام علیکم آپ بھیجتے ہو۔

حکم دیا گیا کہ درود و سلام بھیجا کرو۔ ہم نے پڑھنا شروع کر دیا۔ حکم تھا نماز قائم کیا کرو، ہم نے نماز پڑھنا شروع کر دیا، نماز قائم کیا کرو، درود بھیجا کرو۔ ذکر کیا کرو۔ کیا کرو پر زور ہے نہ کہ پڑھا کرو۔ ہم نے پڑھنے پر زور دیا ہے کرنے پر نہیں۔ پڑھنا گردان جبکہ کرنا عمل ہے۔

-

مثال کے طور پر: آپ سلام علیکم پڑھ رہے ہو۔۔۔۔۔ بار بار وظیفہ کی طرح، کچھ دیر بعد آپ کا دوست آجاتا ہے آپ سے ملنے آپ نے اسے دیکھ کر کہا: سلام علیکم ۔۔۔۔ یہ آپ نے سلام بھیجا۔

-

سلام کیا کرو۔۔۔۔۔ سلام بھیجا کرو ۔۔ ایک ہی بات ہے، سلام پڑھا نہ کرو۔  میں آپ کو سلام کرتا ہوں ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔۔ کیا یہ میں نے پڑھا یا بھیجا۔۔۔۔ اگر آپ موجود نہ ہو اور میں پڑھتا رہوں کہ سلام علیکم ۔۔۔۔ سلام علیکم ۔۔۔۔ سلام علیکم تو یہ پڑھنا کہلائے گا۔ اگر آپ کے سامنے آپ کو دیکھ کر کہوں کہ بھائی جان اسلام علیکم ۔۔۔ تو یہ میں نے پڑھا نہیں بلکہ سلام بھیجا۔

-

بلکل اسی طرح حکم دیا گیا درود بھیجا کرو۔ ہم نے پڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔ پہ لاکھوں سلام ۔۔۔۔ کروڑوں سلام ۔۔۔ تے اربوں سلام ۔۔۔ جبکہ بھیجا ایک دفعہ بھی نہ ہو۔

---

ایک دوست نے بابا جان سے کہا کہ میں دورد شریف کا ورد بہت ذیادہ کرتا ہوں؟ بابا جان نے کہا اچھی بات ہے درو سلام بھیجنا چاہیئے مگر جب سرکار سامنے ہو تو۔ ہم صرف پڑھی جا رہے ہیں پڑھی جا رہے ہیں اور پڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا عمل زیرو ہے۔ قرآن پڑھنے کے لیے نہیں کچھ کرنے کے لیے ہے۔ سورت فاتحہ کھول کر دیکھو یہ کیا کہہ رہی ہے اس کو پڑھو نہیں اس پہ چلو ۔۔۔۔ سورت فاتحہ پڑھو نہیں بلکہ یہ جو کہہ رہی ہے اس کو کرو نتیجہ فوراََ سامنے ہوگا۔

-

آپ صراط مسقیم ۔۔۔۔ پڑھ رہے ہو یا صراط کو مستقیم کر رہے۔ انعمت علیھم پڑھ رہے ہو یا انعمت علیھم کی رہنمائی میں چل رہے ہو۔ ہم مانگ رہے ہیں جبکہ چل نہیں رہے۔ مانگنا نہیں چلنا ہے۔ پڑھنا نہیں کرنا ہے۔ پانی پانی پڑھنا اور پانی پینا ۔۔۔۔ پانی پانی پڑھنے سے پیاس مزید بڑھ جائے گی۔ جبکہ پانی پینے سے پیاس بجھ جائے گی۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں سورت فاتحہ پر کوئی بھی چلے تو اسے مرشد مل جائے گا۔ قرآن میں جو کچھ بھی لکھا ہے سب کچھ موجود ہے بس آپ نے اسے اپنی زندگی میں دریافت کرنا ہے۔

-

پڑھنے سے نہیں بلکہ کھوج کرنے سے چیزیں دریافت ہوتی ہیں۔ قرآن کو دریافت کرو، اس کتاب کو خود پر وارد کرو۔ اس کتاب کا مشاہدہ کرو کہ یہ جو کہہ رہی ہے کیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ آپ نے پڑھا صراط مستقیم ۔۔۔۔۔ دکھا مجھے سیدھا راستہ ۔۔۔۔۔ یہ تو صرف لفظ نہیں ہے جس کو آپ نے پڑھا ۔۔۔ یہ تو باقاعدہ ایک سفر ہے ایک جستجو ہے ایک پروگرام ہے۔ ایک راستہ ہے جس کو آپ نے دریافت کرنا ہے ۔۔۔ دیکھنا ہے۔ مشاہدہ کرنا ہے اور اپنی صراط کو مسقیم کرنا ہے صرف مانگنا نہیں۔ بلکہ چلنا ہے۔ کھوج کرنی ہے۔

-

آپ نے پڑھا انعمت علیھم ۔۔۔ چلا مجھے انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر ۔۔۔ انعمت  ۔۔۔۔ انعام یافتہ یہ محض لفظ نہیں ۔۔۔ بلکہ زندہ و جاوید کردار ہے جو اپنا وجود رکھتا ہے۔

-

آپ نے کہا: کہ میرا پرس چور لے کر بھاگ گیا۔ پرس ایک شے ہے چور ایک کردار ہے۔ دونوں موجود ہیں۔ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ پرس نہ ہوتا تو چور لے کر نہ بھاگتا۔ اور اگر چور ہوتا اور پرس نہ ہوتا تب بھی چور پرس کو لے کر بھاگ نہیں سکتا۔ چور بھی موجود تھا اور پرس بھی موجود تھا ۔۔۔ پھر چور نے پرس کو چوری کر دیا۔ بلکل اسی طرح آپ کہتے ہو: صراط مستقیم۔ ساتھ میں کہتے ہو انعمت علیھم۔ صرا مستقیم موجود ہے انعمت عیلھم بھی موجود ہے آپ نے پڑھا اور اپنی زندگی میں اسے دریافت کیا۔ پہلے راہبر تلاش کرو پھر اس راستے پر چلو۔

-

صراط مستقیم بھی وجود رکھتا ہے اور انعمت علیھم بھی وجود رکھتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ اگر دین کو ماضی میں لے کر جاؤگے تو یہ مزہب بن جائے گا۔ اگر دین کو حال میں لاؤ ۔۔۔ اب اور یہاں تو یہ ضابطہ حیات بن جائے گا۔

-

زمانہ مکمل ہوتا ہے: مثال کے طور پر: چور کا کردار پہلے بھی موجود تھا اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔ ڈاکو پہلے بھی تھے اب بھی ہیں اور مستقبل میں بھی ہونگے۔ زنا کرنے والے پہلے بھی موجود تھے اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی ہونگے۔ شراب موجود ہے تو اس کے پینے والی ماضی میں بھی موجود تھے اب بھی موجود ہیں اور آنے والے والا کل بھی موجود ہونگے۔

-

نائی کا کردار کل بھی موجود تھا آج بھی ہے کل بھی ہوگا۔ چمار کا کردار بھی موجود ہے۔ ایسا کوئی کردار نہیں جو کل موجود تھا مگر آج موجود نہیں۔ ہر کردار ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔ اب ابو کا کردار دیکھ لو یہ پہلے بھی موجود تھا اب بھی ابو نامی مخلوق پائی جاتی اور آئندہ بھی پائی جائے گی۔

-

تعجب کی بات ہے جب سب کچھ موجود ہے تو پھر انمعت علیھم کہاں غائب ہو گئے۔ ان کا وجود کدھر ہے۔ جب اسم موجود ہے تو اس کا وجود بھی ہونا چاہیئے۔ حال میں سب کردار موجود ہیں۔

-

-

-

قصہ آدم کی تمثیل:

ـــــــــــــــــــــــــــــ

ہو سکتا ہے قرآن میں جس آدم کا ذکر ہو وہ آپ ہی ہو۔ قرآن میں موجود آدم کی کہانی آپ کی اپنی ہی کہانی ہو۔ آدم کے دو بیٹے آج بھی موجود ہیں۔ ہابیل قابیل۔ آج بھی کوّا موجود ہے جو اس کو مشورہ دے رہا ہے۔ کہ اس طرح نہیں اس طرح دفن کرو اپنے مردہ بھائی کو۔

بوجھو تو جانیں: آپ آدم ہوئے ۔۔۔۔

آدم کے دو بیٹے ۔۔۔ ایک کا نام اچھائی اور ایک کا نام برائی۔ یا تو اچھائی نے برائی پر فتح پانی ہے یا تو برائی نے اچھا کو ختم کر دینا ہے۔ ایک نے مرنا ہے۔

کوّا ۔۔۔۔۔ عقل ہے جو چوبیس گھنٹے بک بک کر رہا ہے۔ سیلف ٹاکنگ ۔۔۔۔ کہ اس طرح کرو ۔۔۔ یوں نہیں یوں کرو۔

-

جس قرآن کو ہم ماضی سمجھ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ اب اور یہاں کی بات ہو اور میری اپنی بات ہو۔

-

یونس کی مچھلی کی تمثیل:

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہم نے بابا جان سے پوچھا یونس علیہ سلام کو مچھلی نے کھایا ۔۔۔۔ تو حال میں یہ مچھلی کدھر گئی ۔۔۔۔ اگر قرآن حال کی کتاب ہے۔ تو مچھلی کہاں ہے۔ بابا جان نے کہا دیکھو خان جی سب کچھ موجود ہے بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیئے۔

-

کہا آج بھی مچھلی موجود ہے اور بڑے بڑے دانا لوگ مچھلی کے پیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کہا ذہن سمندر ہے۔ خیالات اس میں لہریں ہیں۔ بعض اوقات انسان کسی مسئلہ میں پھنس جاتا ہے کسی کنفیوجن میں اور اسے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کرو۔ کچھ سوجھ نہیں رہا ہوتا۔ اس طرح کی سچویشن کو مچھلی کے پیٹ سے تشبیہہ دی ہے۔

-

لوط اور ان کی قوم کی تمثیل:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

لوط علیہ سلام اور اس کی قوم : اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ہم سب عمل قوم لوط میں مبتلا ہوں۔ لوط علیہ سلام کہتے ہیں لونڈے بازی نہ کرو اس میں سے کچھ برامد نہیں ہوگا۔ ہم سب صبح و شام یہی کچھ تو کر رہے ہین۔

-

بوجھو تو جانیں: ہر وہ کام جس کا نتیجہ برامد نہ ہو بے نتیجہ کام کہلاتا ہے۔ بے ثمر اور بے پھل آور کام، وہ کام جس میں سے کچھ برامد نہ ہو لونڈے بازی کہلاتی ہے۔ ہم سب سمجھدار ہیں ہم ہر اس کام سے گریز کرتے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا۔ اور وہ کام کرتے ہیں جو پھل آور ہو۔

-

لوط علیہ سلام اپنی قوم سے کیا کہتے ہیں؟ کہ لونڈے بازی نہ کرو ، یعنی خیالی خداؤں کی بنڈ مارنا چھوڑ دو اور میری یہ دو بیٹیاں لے لو اس میں سے کچھ برامد ہو جائے گا۔

-

یہاں بڑے بڑے دانا، فلسفی، سکالر، مفکر، روشن خیال، عالم خیالی بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ خیالی خداؤں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے جس خیالی خداؤں کی آپ دن رات بنڈ مارہے وہ خدا وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ ان خیالی خداؤں کو چھوڑ دیں اس میں سے کچھ بھی برامد نہیں ہونا۔ یہ محض وقت کا ضیاع ہیں۔ لوط علیہ سلام نے کہا لونڈے بازی چھوڑ دو اس میں سے کچھ بھی برامد نہیں ہونا یہ میری دو بیٹیاں لے لو اس میں سے کچھ برامد ہو جائے گا۔

-

سوچنے والی بات ہے اگر تو یہ ماضی کی کہانی ہے تو لوط علیہ سلام کیا کہہ رہے ہیں۔ دو بیٹیاں پوری قوم کو کیسے پوری ہونگی؟ کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ لوط علیہ سلام کی دو بیٹیوں کے نام کیا ہیں؟

-

انبیاء کا پیغام کیا ہے؟ کس چیز کی تعلیم دیتے ہیں۔ کس چیز کا امر جاری کرتے ہیں۔ انبیاء و صوفیاء توحید کی تعلیم دیتے ہیں۔آپ کی دو بیٹیوں کے نام : نفی اور اثبات۔

خیالی خداؤں کی عبادت سے کچھ برامد نہیں ہونا۔ مجھ سے یہ دو لفظ لے لو اس میں سے کچھ برامد ہو جائے گا۔ دو لفظ ۔۔۔ نفی اثبات ۔۔۔ دو بیٹیا۔ لونڈے بازی ۔۔ بے نتیجہ عمل جس میں سے کچھ بھی برامد نہ ہو۔۔۔

-

عیسٰی کا مردوں کی زندہ کرنا تمثیل:

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کہتے ہیں عیسٰی مردوں کو زندہ کرتے تھے؟ جبکہ یہ بات فطرت کے اصول کے خلاف ہے۔ اللہ کی فطرت جاریہ نہیں بدلتی۔ وہ اٹل اور محکم ہے۔ سنت اللہ لا تبدیلا

اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ تو پھر مردے زندہ کیسے ہو گئے؟جہاں تک مردے زندہ کرنے کی بات ہے وہ آج بھی ہو رہے ہیں۔ آج بھی عیسٰی مردہ دلوں کو زندہ کر رہے ہیں۔

۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے درد کی دوا کرے کوئی۔

-

ابراہیم کا پرندوں کو ذبح کرنا تمثیل:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایک دوست نے کہا یہ حقیقی واقعہ ہے ۔اور بطور دلیل ۔۔۔ حضرت ابراہیم کا واقعہ بیان کیا۔ کہ ابراہیم اللہ سے کہتا ہے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرینگے میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ کہتا ہے چار پرندے ذبح کرو ۔۔۔ اور ان کے گوشت کو آپش میں گھل مل لو اور  پھر ان کو پہاڑ پر رکھ دو اور پھر ان کو پکارو وہ دوڑ کر بھاگتی دوڑتی ہوئی تمھارے پاس آئینگی۔

-

اگر تو یہ سب ماضی کے واقعات ہیں تو ہمارے کس کام کے ۔ کوئی آیا اور اس نے فلاں فلاں کام کیا اور فلاح پا گیا۔ تو اس سے ہمیں کیا ملا ، ہم نے کیا سیکھا؟ اگر تو یہ میرا واقعہ ہے میری بات ہے تو پھر ہو سکتا ہے مجھے اس میں سے بہت کچھ ملے جو میری زندگی کو بدل دے۔ ہو سکتا ہے یہ میری ہی بات ہو رہی ہو ۔۔۔۔ اس کہانی کا کردار حال میں میں ہوں اور مجھے ان پرندوں کو ذبح کرنا ہے۔

-

یہ چار پرندے کہاں ہیں تاکہ ہم انہیں ذہح کر کے بقا کا مشاہدہ کر لیں۔ انسان پانچ عنصر کا بنا ہے۔ آگ ہوا پانی مٹی ۔۔۔ روح۔ اس پر چار تکبیریں پڑھنی ہے انہیں ذبح کرنا ہے کوئی شے فنا نہیں ہوتی۔ ذبح ہو کر یہ پھر انسان کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہیں۔ اس کی تابع ہو جاتی ہیں۔

-

چار چراغ تیری بلن ہمیشہ

پنجواں میں بالن آئی۔

-

بابا جان سے پوچھا دین میں جنازے کی کیا اہمیت ہے۔ بابا جان نے کہا مزہب میں دوسرے جنازہ پڑھتے ہیں جبکہ دین میں انسان اپنی نماز جنازہ خود پڑھتا ہے۔ مزہ تو تب ہے کہ بندہ اپنی جنازہ خود پڑھے۔ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں یہ چار تکبیریں چار عناصر پر پھیرو انہیں ذبح کر دو ۔۔ ان کا جنازہ پڑھ لو۔

-

مرنے سے پہلے مرجا بندے

تیرا دیکھے شان زمانہ۔

---------------------------

قرآن عرفان خودی کی کتاب ہے اس کا ہر ہر کردار تمھارا اپنا ہی کردار ہے۔ الف سے ولناس تک تمھاری اپنی ہی کہانی ہے۔ تمھارا اپنا ہی سفر ہے۔ اگر اسے ماضی کی کتاب سمجھ کر پڑھو گے تو اس میں سے کچھ بھی برامد نہیں ہوگا اگر اسے ضابطہ حیات بناؤگے تو یہ تمھاری رہنمائی کرے گا۔ تمہیں ہدایت دے گا۔

-

اللہ کے رسول نے فرمایا کہ: ہم نے تمھارے لیے دین کو اور آسان کر دیا ہے۔ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ تم دو دو اور ایک ایک کر کے کھڑے ہو جاؤ ۔۔۔ اور غور کرو۔

سورت بقرہ ۔۔۔

۔۔۔

 آپ سرکار فرماتے ہیں: تم راہ چلتے، دو دو کر کے کھڑے ہو جاؤ یا ایک ایک کر کے ہی کھڑے ہو جاؤ اور میری بات سنو ۔۔۔ ہو سکتا ہے تمھاری بھلے کی بات ہو ۔۔۔۔ تم اس پہ غور کرو ۔۔ تمہیں کچھ فائدہ دے جائے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]