محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


پاکستان اور قادیانیت کچھ تلخ حقائق

ازقـلـم : مــحــــــمـــد اشــــــرف 4ستمبر2018

گزشتہ الیکشن سے پہلے مولانافضل الرحمن  صاحب عمران خان صاحب پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرتے رہے، جمیعت کے لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عمران خان غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، تاہم اس بات میں کوئ صداقت نہیں ہے،،،
عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جو مسلک پرستی اور فرقہ پرستی کے بجاۓ تمام پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کی جد و جہد میں ہے، عمران خان نے وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہو کر بڑی دلیری سے ملکی معاملات کو سلجھانا شروع کیا، عمران خان کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے خطاب کو پاکستان کی تاریخ کے دوسرے بڑے تاریخی خطاب کا اعزاز حاصل ہوا، عمران خان کی زبان سے عوام کے دلوں کی باتیں نکلتی رہیں، کئ مخالفین بھی تعریف پر مجبور ہوۓ۔
عمران خان ایک پختہ عزم شخصیت کے مالک ہیں، عمران خان اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لا کر کھڑا کر سکتے ہیں،، مگر چند چیزوں کا عمران خان کو بے حد خیال رکھنا ہو گا۔

عمران خان تادیر حکمرانی تب ہی کر پائیں گے، کہ پاکستان کے مذہبی عوام کے دل جیتتے رہیں، عمران خان کا احمدی کمیونٹی کے میاں عاطف کو مشیر لگانے کے فیصلے سے مذہبی حلقوں میں شدید تشویش پائ جاتی ہے، جس کا جلد از جلد سدباب کرنا ہو گا، عمران خان کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور فیصلہ تبدیل کرنا چاہیے، ورنہ نا صرف حکومت کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ آئندہ کے لیے پی ٹی آئ کا نام لینا بھی کوئ گوارہ نہیں کرے گا،،،یاد رہے مسلمان اور بالخصوص پاکستانی قوم چاہیے جتنی بھی گناہوں میں ڈوبی ہو عقیدہ ختم نبوتﷺ پر کمپرومائز نہیں کرے گی۔
اگرچہ ہمیں عمران خان کی نیت پر شک نہیں ہے اب تک اور اگر عمران خان کا یہ فیصلہ برقرار رہا تو پھر ان کے مخالفین نے تو ان کو قادیانی کہنا ہی کہنا ہے تحریک انصاف کے کارکنان بھی رخ موڑ لیں گے، اگر عمران خان طیب اردوان بننا چاہتے ہیں تو ان کو عوام کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کرنی پڑے گی۔

بعض اطلاعات کے مطابق مساجد کے خطباء حضرات نے آئندہ جمعہ کو حکومت مخالف ریلیوں کا فیصلہ بھی کر لیا ہے،، اور اگر ان لوگوں کو عمران خان کے مخالفین جمیعت علماء اسلام(ف)اور مولانا رضوی صاحب ٹی ایل پی کی حمایت مل گئ تو یہ نا صرف ملک بھر میں احتجاج کریں گے بلکہ اسلام آباد میں دھرنا بھی دے سکتے ہیں،، اور جب دھرنا دیا تو حکومت کے پاس دو آپشن ہونگے 1⃣مذاکرات2⃣آپریشن اگر پہلے آپشن کی طرف حکومت گئ تو یہ اپنے تمام مطالبات منوا کر اٹھیں گے، جس سے عوام میں ان مظاہرین کا مورال بلند ہو گا جب کہ حکومت کی اہمیت عوام کے دلوں میں کم ہو گی کہ یہی فیصلہ پہلے تبدیل کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔
اگر آپشن نمبر دو کی طرف حکومت جاتی ہے تو یقیناً سانحہ لال مسجد، سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی مشکلات کا سامنا ہو گا جو حکومت ملک اور عوام کسی کے حق میں بہتر نہیں ہے۔

قادیانیت کو آئین پاکستان کافر کہتا ہے جبکہ قادیانی خود کو مسلم کہتے ہیں، یعنی جو شخص آئین کو مان ہی نہیں رہا آپ اس کو حکومتی منصب دے رہے ہیں، قادیانیت کے کافر ہونے اور  قادیانیت کو حکومتی منصب پر نہ بیٹھانے کے حق میں سنی،شیعہ، بریلوی، دیوبندی،اہلحدیث، سب متفق ہیں۔ ایسی صورت میں یہ فیصلہ حکومت کے ساتھ ساتھ پارٹی کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے اور مخالفین کے موقف کو مضبوط بھی کریگا۔اور ملک میں جو انتشار برپا ہو گا اسکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

🔯دوسری ایک اہم بات🔯

آج مذہبی حلقے چلا رہے ہیں کبھی ختم نبوتﷺ کا مسئلہ تو کبھی ناموس صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ پر حملے یہ قصور صرف اور صرف مولویوں کا ہے۔اور اس سنی قوم کا چاہیے وہ دیوبندی ہو بریلوی ہو اہلحدیث ہو ان لوگوں نے اکثریت کے باوجود ذمہ داری کا حق ادا نہیں کیا، مدارس میں قرآن و حدیث تو پڑھائ اعمال صالحہ تو سیکھاۓ، چھوٹوں پر شفقت بڑوں کا ادب رہن سہن کے اسلامی طریقے تو بتاۓ مگر کچھ اہم چیزیں مس کر دیں۔

مثال کے طور پر جب ساٹھ کی دہائ میں ٹیوی کی آمد ہوئ تو علماء اکرام نے فتوہ جاری کر دیا۔ ٹیوی دیکھنا ٹیوی پر پروگرام کرنا حرام ہے، جب ٹیوی پر دین سے غافل لوگوں نے ڈیرے ڈال لیے یورپی فنڈنگ کے فحش اشہارات سے چینل چلنے لگے تو مولوی بھی ٹیوی دیکھنا شروع اور ٹیوی دیکھنا بھی جائز ہو گی فرق صرف اتنا ہے جاہل اینکر سناۓ گا مولوی سنے گا، رمضان میں مولوی سنے گا اور ناچ گانے والی اداکارائیں دین سیکھائیں گی ٹیوی پر بیٹھ کر۔

آج ٹیوی پر کسی مولوی کو اہمیت نہیں دی جاتی صرف تلاوت اور ایک عدد نعت کے لیے بلایا جاتا ہے، اور پہلے چینل پالیسی پڑھنے کے لیے پیپر تھما دیا جاتا ہے۔
اگر فتوؤں کے بجاۓ اس وقت ٹیوی کا رخ علماء کرتے تو آج کوئ اداکار آپ کو رمضان ٹرنسمیشن کے نام سے دین نہ سکھا رہا ہوتا آپ قوم کو ٹیوی کے پلیٹ فارم سے سنا رہے ہوتے۔
اسی طرح پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں اعلی عہدوں پر اپنے لوگ لگانے کے لیے قادیانیت سرگرم رہی اور مسلمان سویا رہا اگر کسی نے سرکاری ملازمت حاصل کی بھی تو سپاہی بھرتی ہو گیا، سروس کی ریٹائرڈ ہوا اور گھر بیٹھ گیا، عام مسلمان کی یہ کوشش ہی نہیں کہ یہ ہمارا ملک ہے ہم اسکے محافظ ہیں ہم اوپر کے لیول پر جا کر اس ملک و قوم کی خدمت کریں اور اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانے میں کردار ادا کریں۔

مگر آپ بافکر رہیں قادیانیت پوری کوشش کر رہی ہے سیول و عسکری اداروں کی اعلی پوسٹوں اور سیاست کے اعلی درجوں پر فائز ہو کر آئین پاکستان میں ترمیم اور پاکستان کو پہلے لبرل اور پھر احمدی سٹیٹ بنانے کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بننے والی نئ سوسائٹیوں میں پلاٹوں کی خرید اور کالونیاں بنانا بھی ان کی اولین ترجعات ہیں جن میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہیں۔

اب فیصلہ آپکا
پاکستان مسلم سٹیٹ یا احمدی سٹیٹ
ہم چاہیں تو بھنگ پی کر سو جائیں اور چاہیں تو قادیانیت کے ناپاک عزائم کے خلاف جواں مردی سے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے جوانوں اور بچوں کو قرآن سنت کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم دلوا کر ریاستی اداروں کے اعلی عہدوں تک پہنچا سکتے ہیں،،،،
جو ایسا کرے کا ریاست پاکستان اسی کے انٹر آۓ گی ورنہ احتجاج ہی کرتے رہنا۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]